سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔
دورانِ سماعت ملٹری کورٹ سے سنائی گئی سزا پر اپیل کنندہ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بینچ کی جانب سے بھارت میں کورٹ مارشل کے خلاف اپیل کا حق دینے کا سوال ہوا تھا، برطانیہ میں کورٹ مارشل فوجی افسر نہیں بلکہ ہائی کورٹ طرز پر تعینات ججز کرتے ہیں، کمانڈنگ افسر صرف سنجیدہ نوعیت کا کیس ہونے پر مقدمہ آزاد فورم کو بھیج سکتا ہے۔
جسٹس امین الدین نے وکیل سے کہا کہ ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے کہ برطانیہ کا نہیں، غیر ضروری بحث سے وقت ضائع کر رہے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ زیرِ سماعت اپیلوں میں کالعدم شدہ دفعات بحالی کی استدعا کی گئی ہے، قانون کی شقوں کا جائزہ لینا ہے تو عالمی قوانین کو بھی دیکھنا ہو گا، اگر دفعات کالعدم نہ ہوتیں تو دلائل غیر متعلقہ ہو سکتے تھے، اب نہیں ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ موجودہ نظام کے تحت شہری کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے یا نہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شہریوں کا کورٹ مارشل کسی صورت میں بھی ممکن نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے سوال کیا کہ برطانوی قانون تو اپنی فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہے، موجودہ کیس میں تو جرم عام شہریوں نے کیا ہے، شہریوں پر کیسے لاگو ہو سکتا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ برطانوی قانون کی مثال ٹرائل کے آزاد اور شفاف ہونے کے تناظر میں دی ہے۔
سلمان اکرم راجہ سے 9 مئی کا جرم سرزد ہونے سے متعلق سوالات
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا آپ تسلیم کرتے ہیں 9 مئی کا جرم سرزد ہوا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جی جی میں اس پر عدالت کو بتاتا ہوں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سے کہا کہ 9 مئی کو حد کر دی گئی، اب آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے ہیں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کو محدود نہیں کیا جاسکتا، ملزمان کا آزاد عدالت اور فیئر ٹرائل کا حق ہے۔
جسٹس امین الدین نے وکیل سے کہا کہ فیئر ٹرائل کے لیے آپ کو آرٹیکل آٹھ تین سے نکلنا ہو گا۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اے پی ایس والے آج بھی انصاف کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول کے کچھ مجرمان کو پھانسی ہوگئی تھی۔
جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج میں ایک انجینئرنگ کور ہوتی ہے، میڈیکل کور بھی ہوتی ہے، دونوں کور میں ماہر انجینئر اور ڈاکٹرز ہوتے ہیں، کیا فوج میں اب جوڈیشل کور بھی بنا دی جائے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسلح افواج کی جیگ برانچ ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ ایک جرم سرزد ہوا تو سزا ایک ہوگی، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ملزم کا ملٹری ٹرائل ہو تو دوسرا ملزم الگ کر دیا جائے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم کر دینا یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، مجھے ایک بہت بڑا ملزم بنادیا گیا ہے، مجھ پر رینجرز اہلکاروں کے قتل کی بانئ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر سازش کا الزام ہے، اگر قانون کی شقیں بحال ہوتی ہیں تو مجھے ایک کرنل کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی کے سیکشن لگے ہوں گے؟
جسٹس امین الدین نے سلمان اکرم راجہ سے سوال کیا کہ کیا آپ کی ملٹری کسٹڈی مانگی گئی ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرے کیس کو چھوڑیں، نظام ایسا ہے کہ الزام لگا کر ملٹری ٹرائل کی طرف لے جاؤ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ آپ مفروضوں پر نہ جائیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کسی کو پکڑ کر ملٹری ٹرائل کریں گے، عام مقدمے میں بھی محض الزام پر ملزم کو پکڑا جاتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا پرانا قانون صرف جاسوسی کے خلاف تھا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم سے نئے جرائم شامل کیے گئے۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایف بی علی کیس کے وقت اگر آرٹیکل 175 کی شق 3 ہوتی تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں نہ جاتا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ مرکزی فیصلے میں تو آرٹیکل 175 کی شق 3 کے تحت ایف بی علی کیس کالعدم نہیں قرار دیا گیا، آج تک کسی عدالتی فیصلے میں ایف بی علی کیس کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا،
جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم میں کہا گیا آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت کیسز آئینی بینچ میں جائیں گے، ترمیم کے مطابق آئینی تشریح والے زیرِ التوا کیسز خود بخود آئینی بینچ میں چلے جائیں گے، ایک بینچ نے فیصلہ دیا، کیسز خود کار طور پر آئینی بینچ کے پاس نہیں جاسکتے، ہم نے کہا نہیں، 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد کیسز خود کار انداز میں آئینی بینچ میں جائیں گے، آرٹیکل 175 کی شق تین کے تحت ایف بی علی کیس کو ختم کیوں نہیں کیا گیا؟
جسٹس محمد علی نے وکیل سے سوال کیا کہ مرکزی کیس میں ایف بی علی فیصلہ کالعدم کرنے کی استدعا ہی نہیں تو اپیل میں کیسے کر سکتے تھے؟
جسٹس امین الدین نے وکیل سے سوال کیا کہ ایف بی علی کیس کے فیصلے کو چیلنج کیوں نہیں کیا گیا؟
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں، اپیل کی عدالت ہے، ایف بی علی کیس کو دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم وجوہات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے الگ سے وجوہات بھی دے سکتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل سلمان اکرم راجہ سے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم ہوئی تب آپ کی پارٹی نے ملٹری کورٹس کے قیام کی حمایت کی۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں عدالت میں کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی نہیں کر رہا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یوں کہہ دیتی ہوں ایک سیاسی جماعت نے 21ویں آئینی ترمیم کے تحت ملٹری کورٹس کی حمایت کی،
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اُس وقت انہوں نے غلط کیا تھا۔
جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی، اب اپوزیشن میں آکر کہہ دیں ماضی میں جو ہوا غلط تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم میں ایک نکتہ اچھا تھا کہ سیاسی جماعتوں پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا، جسٹس عظمت سعید کی اللّٰہ مغفرت فرمائے، انہوں نے 21ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ لکھا تھا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ ن درخواستوں پر سماعت 18فروری تک ملتوی کر دی۔