وزیراعظم شہباز شریف نے بدھ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ایم ڈی کرسٹا لینا جارجیوا سے دبئی میں گفتگو کے حوالے سے جو تفصیلات بتائیں ، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وطن عزیز میں بجلی سستی کرنے کی کوششیں بار آور ہونے کے امکانات قوی ہیں۔ مالیاتی ادارے کی قرض شرائط میں بعض انتظامی اصلاحات کے علاوہ ایسے اقدامات اور محاصل بھی شامل ہوتے ہیں جن سے عوام اورحکومت کیلئے وقتی مشکلات تو ضرور پیدا ہوتی ہیں مگر آگےچل کر معاشی دلدل سے نکلنے کے راستے بھی کھلتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں منعقدہ ’’ورلڈ گورنمنٹس سمٹ 2025‘‘کی سائڈ لائن پر وزیر اعظم پاکستان نے کئی سربراہان مملکت و حکومت اور دیگر نمایاں شخصیات سے اہم ملاقاتیں کی تھیں جن میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی بھی شامل تھیں۔ اس ملاقات میں پاور سیکٹر سے متعلق گفتگو میں میاں شہباز شریف کا ترقی کے حوالے سے موقف یہ تھا کہ اس کا بڑا انحصار پیداواری لاگت کم اور بجلی سستی ہونے پر ہے۔کرسٹا لینا جارجیوانے مثبت انداز میں اتفاق کرتےہوئے وزیر اعظم پاکستان سے کہا کہ آپ اپنا پلان لے کر آئیں،ہم بات کرنے کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں آئی ایم ایف کی حمایت یافتہ اصلاحات پر وزیر اعظم کا عزم حوصلہ افزا ہے، پاکستانی معیشت افراط زر میں کمی کے ساتھ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والے پروگراموں کو موثر طریقےسے بروئے کار لانےمیں حکومت پاکستان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت استحکام کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ بیان کہ ’’بجلی کی قیمتوں پر آئی ایم ایف کے نہ ماننے کا کھٹکا اب نہیں رہا‘‘ بھرپور اعتماد کا مظہرہے۔ بدھ کے روز وزیر اعظم آفس سے جاری بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ وزیر اعظم نےاصلاحات کی رفتار بالخصوص ٹیکس اصلاحات ، توانائی کے شعبے کی کارکردگی اور نجی شعبے کی ترقی جیسے اہم شعبوں میں پیش رفت برقراررکھنے کیلئے حکومتی عزم کا اعادہ کیا ۔ ادھر کرسٹا لینا جارجیوا نے ’’ایکس‘‘ پرایک بیان میں وزیر اعظم شہباز شریف کی ٹیم سے اپنی بات چیت کے حوالے سے آئی ایم ایف کے تعاون سے بروئے کار لائے جانےوالے پروگراموں پر پاکستانی عزم کو سراہا، واضح کیا کہ اصلاحات سے شرح نمو اور نوجوانوں کے روزگار میں اضافہ کے راہ ہموار ہو گی ،انہوںنے اسلام آبادکے فیصلہ کن اقدامات کی حمایت کی۔ یہ ساری باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ پاکستانی معیشت کامیابی کی طرف گامزن ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہےکہ آئی ایم ایف کا ایک اعلیٰ مشن پاکستان میں عدالتی اور ریگولیٹری نظاموں کے اکیڈمک مطالعے کیلئے اسلام آباد میں موجود ہے جبکہ ایک اور تکنیکی مشن ماحولیاتی فنڈ کے ایک ارب ڈالر کی پاکستانی درخواست پر حتمی بات چیت کیلئے اس ماہ کے آخر تک اسلام آباد پہنچےگا۔ اگر آئی ایم ایف ماحولیاتی اعانت پر آمادہ ہو جاتا ہے تو مجموعی طور پر آئی ایم ایف قرضے کا حجم سات ارب ڈالر سے بڑھ کر 8ارب ڈالر ہو جائےگا ۔نیا قرض نرم شرائط پر 30سال کی ادائیگی کیلئے ہو گا۔ یہ اعانت ایسے ملکوں کو دی جاتی ہے جو ماحولیاتی خطرات کی روک تھام کیلئے اعلیٰ درجے کی اصلاحات بروئے کار لاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں، کہ ایک طرف یوکرائن جنگ کے خاتمے کے امکانات سمیت بعض ایسے اشاریے سامنے آرہے ہیں جو پاکستانی معیشت کےاستحکام کا ذریعہ بن سکتے ہیں دوسری جانب مشرق وسطیٰ کے حالات مسلم ممالک سے باہمی رابطوں اور دانشمندانہ فیصلوں کے متقاضی نظر آتے ہیں، اچھا ہو کہ سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات پس پشت ڈال کر ملک میں ایسی فضا پیدا کریں جس سے ترقی و خوشحالی کی راہ پر تیزرفتار پیش قدمی ممکن ہو۔