• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

جہاں تک ابا جی کی ذاتی زندگی کا تعلق ہے وہ قابل تقلید بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ ابا جی ان دنوں احباب اور عزیز و اقارب کو پوسٹ کارڈ لکھا کرتے تھے اب تو یہ سلسلہ بھی نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیاہے۔بہر حال ابا جی ڈاک کی ترسیل کے حوالے سے بہت وہمی تھے اس حوالے سے کسی پر کم ہی اعتبار کرتےتھے، مجھے پوسٹ کارڈ دیتے کہ پوسٹ آفس کے لیٹر بکس ہی میں ڈالنا ہے، ادھر ادھر کے لیٹر بکس میں نہیں۔ پھر یہ ہدایت کہ جتنا ہاتھ باکس میں جا سکے وہ ضرور ڈالنا کہیں پوسٹ کارڈ ’’رستے‘‘ ہی میں نہ رہ جائے۔ ایک دن ابا جی پوسٹ کارڈ ڈالنے کیلئے خود ڈاکخانے گئے اور اپنا پورا ہاتھ یا جتنا ممکن تھا بکس میں ڈال دیا، کارڈ تو یقیناً بکس کی تہہ تک پہنچ گیا ہوگا مگر اباجی کا ہاتھ اندر رہ گیا۔ ابا جی نے بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں نکلا۔ اتنے میں ابا جی کے بہت سے عقیدت مند اکٹھے ہوگئے اور ان کی مشترکہ جدوجہد سے ہاتھ باہر نکالنے میں کامیابی ممکن ہوئی۔ ابا جی کو دوسرے شہروں میں منعقد ہوئے دینی جلسوں میں جب جانا ہوتا، یہ میرے بچپن کی بات ہے، مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے اور جب منبر پر خطاب کیلئےتشریف فرما ہوتےاپنی خطابت سے ایک سماں سا باندھ دیتے، نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے اور مجھے انہی نعروں کے درمیان نیند آ جاتی اور میں مسجد کی چٹائی پر بڑے سکون سے سویا رہتا۔ میری چھ بہنیں اور ہم دو بھائی تھے، میں چھوٹا تھا اور یوں مجھے بہت پیار ملتا تھا، چار پانچ سال کی عمر تک ابا جی مجھے خود نہلاتے تھے۔ابا جی حقہ پیتے مگر حقہ نوشی کو مکروہ جانتے تھے۔ان کا حقہ پانی بدل کر میں خود تازہ کرتا اور چلم میں کوئلے اور تمباکوکی متناسب مقدار ڈالتا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ابا جی اس فعل کو مکروہ سمجھتے تھے چنانچہ کسی مہمان نے ڈرائنگ روم میں بھی بیٹھنا ہوتا تو پہلے سارا دھواں ’’دھکے مار کر‘‘ باہر نکالا جاتا اسکے بعد مہمان ہمارے گھر میں قدم رکھ پاتا۔

ابا جی زبردست تیراک تھے جب ہم وزیر آباد میں تھے، ابا جی ایک دفعہ ہمیں دریائے چناب پر لے کر گئے۔ پہلے خود تیرتے تیرتے بہت دور نکل گئے، واپس آئے تو اتنی دیر میں دریا میں ڈالا ہوا تربوز ٹھنڈا ہو چکا تھا، واضح رہے ہم پکنک پر آئے ہوئے تھےاور پکنک پر ایسی عیاشی تو کی جاتی ہے۔ ہم نے تربوز کی ٹھنڈی ٹھنڈی کاشیں مزے لے لے کر کھائیں اور خدا کا شکر ادا کیا۔ اس دفعہ ابا جی نے اکیلے دریا کی موجوں سے کھیلنے کی بجائے میری طرف اپنے ہاتھ بڑھائے اور میں ان کی چوڑی چکلی چھاتی سے لپٹ گیا، مگر انہو ںنے مجھے گود سے اٹھا کر اپنے کاندھوں پر بٹھایا اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دی اور تیرتے تیرتے ایک دفعہ پھر دور نکل گئے، مجھے بہت ڈربھی لگ رہا تھا مگر کچھ کچھ مزہ بھی آ رہا تھا ۔ شاید ڈر زیادہ لگ رہا تھا کہ واپس کنارے پر پہنچ کر میں نے ایک لمبا سانس لیا۔ ابا جی کی زندگی کو دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے، ان کے نقش پا پر چلنا شاید ممکن ہی نہیں، انہیں بہت معمولی مشاہرہ ملتا تھا اس میں جتنی برکت تھی، میں آج بھی سوچتا ہوں تو حیرت زدہ رہ جاتا ہوں۔ ظاہر ہے ہمیں عالیشان کپڑے پہننے کو نہیں ملتے تھے اور نہ ہی گھر میں وہ کھانے پکتے تھے جو عمومی طور پر ان دِنوں گھر میں پکائے جاتے تھے۔ ابا جی نے اس قلیل مشاہرے میں بیٹیوں کی شادی کی، صرف یہی نہیں انہیں اپنی بہن کی بیٹیوں اور ان کی اولاد سے بھی بہت پیار تھا۔ اسی طرح اپنی بیٹیوں کے حوالے سے بھی وہ مقدور بھر کچھ نہ کچھ کرتے تھے۔ کسی کو بیس، کسی کو پچیس روپے کا منی آرڈر کرتے، باقاعدگی سے ان کی طرف جاتے بلکہ میرے کئی بھانجےہمارےگھر میں طویل عرصہ رہتے تھے۔ انہیں آج تک اپنے نانا کی بے پایاں محبتیں یاد ہیں۔ ابا جی نے اپنی شدید خواہش کو پس پشت ڈالتے ہوئے مجھے دینی مدرسے میں داخل کرنے کی بجائے کالج میں داخلے کی اجازت دے دی تاہم گھر پر دینی تعلیم دیتے رہے۔ انہوں نے تین سپارے ترجمے اور تفسیر کے ساتھ مجھے پڑھائے اور میرے الٹے سیدھے سوالوں کا جواب دیتے رہے۔

مجھے سمجھ نہیں آتی میں اپنے والد کی زندگی کے کون سے پہلو پر بات کرو ں اور کسے چھوڑوں، میں بہت چھوٹا تھا جب میری دائیںٹانگ کے نچلے حصے پر ایک پھوڑا نکل آیا۔ ایک مشہور جراح سے علاج کروایا تو ابا جی مجھے میوہسپتال لے گئے، اتنی بڑی شخصیت مجھے اپنے کاندھوں پر اٹھائے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں لے جاتے رہے۔ میری ٹانگ کا آپریشن ایک خدا ترس اور بہت ممتاز مقام کے حامل ڈاکٹر امیر الدین نے کیا۔ یہ پھوڑا کینسر ٹائپ کوئی چیز تھا۔ چنانچہ ٹانگ کی ہڈی تک کھرچ دی گئی اور ٹانگ میں ناصرف یہ خلا تاحال باقی ہے بلکہ انگلی سے ہلکاسا دبانے پر سخت تکلیف ہوتی ہے۔ جب بھی مجھے زخم کا یہ نشان نظر آتا ہے، ساتھ ہی میں دیکھتا ہوں کہ ابا جی نے مجھے اپنے کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے اور ہسپتال کے برآمدے میں لئے پھر رہے ہیں۔میں جب کبھی کالج سے آتا اور ابا جی کو صحن میں چارپائی پر بیٹھا دیکھتا تو ان کے ساتھ لپٹ جاتایا ان کے پاؤں دبانے لگتا۔ میری محبت کا یہ اظہار اللہ جانے کتنی خوشی ملتی ہوگی۔اس حوالے سے ایک واقعہ میری یادداشت کا دائمی حصہ ہے۔ ابا جی جب گھر سے باہر جاتے تھے تو عموماً شام تک واپس آ جاتے تھے۔ ایک دن عشاء کا وقت ہوگیا تو مجھے تشویش ہوئی میں نے تمام تھانوں میں فون کرکے پوچھا کہ کسی حادثے کے نتیجے میں اس حلیے کے شخص کو کسی ہسپتال تو نہیں پہنچایا، مگر بے سود، اس روز شدید بارش ہو رہی تھی میں نے اپنی بڑی بہن سعادت آپی کو فون کرنے کی کوشش کی کہ شاید ان کی طرف ہوں مگر شدید اور مسلسل بارش کی وجہ سے فون سروس معطل ہو چکی تھی، تب میں نے موٹر سائیکل نکالی اور میوہسپتال کے مردہ خانے میں پہنچ گیا، وہاں زمین پر کئی لاشیں پڑی تھیں، کچھ فریزر کے اندر تھیں اور کچھ کودیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا کیا ہوا تھا، میں نے ایک ایک لاش کو غور سے دیکھا اور پھر مایوس ہو کر گھر لوٹ آیا۔ مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، صبح کی اذان ہوئی تو ابا جی کھلے دروازے میں سے گھر میں داخل ہوئے، میں ان پر برس پڑا ، آپ کو اتنا خیال نہیں آیا کہ میں کتنا پریشان ہوں گا۔ میری گفتگو سن کر ابا جی کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ ابھری اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’مجھے آج پتہ چلا تم مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو‘‘۔ میری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے ، ابا جی نے اپنے کاندھے پر دھرے رومال سے میرے آنسو پونچھے اور بتایا کہ بارش کی وجہ سے انہیں اپنی بیٹی کے پاس رکنا پڑگیا تھا، جونہی بارش ختم ہوئی میں آگیا، دیکھو تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔

اس رات مجھے بہت تسلی کی نیند آئی، میں بہت دیر تک سویا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین