پی ٹی آئی رہنما سینیٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ حکومت نے عدلیہ کی ساکھ اور خود مختاری کونقصان پہنچایا ہے۔
سینیٹ اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ قوم پس رہی ہے، لوگ ناراض ہیں، ان کی منتخب حکومت ان کی مرضی کے مطابق نہیں بنائی گئی۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ قوم سے احتجاج کا حق چھین لیا گیا ہے، شکر ہے کہ سینیٹ نے قرار داد پاس کر دی کہ احتجاج کا حق ہونا چاہیے جبکہ قوم کے پاس آخری حق آزادیٔ اظہارِ رائے کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ کو سینسر شپ ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، بانیٔ پی ٹی آئی کا نام اور تصویر میڈیا پر نہیں چلائی جا سکتی۔
ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگ اپنی رائے کا اظہار کر سکتے تھے، سوشل میڈیا کے مسائل ہیں، جھوٹی خبر بھی شائع ہوتی ہے جبکہ جھوٹی خبر کو ہم نے کنٹرول اور ریگولیٹ کرنا ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ حکومت نے نفرت کے طوفان بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا کو فیک نیوز کی مد میں ایک اور بم شیل پھینک دیا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے آزادیٔ اظہارِ رائے پر پابندی عائد کر دی ہے، جب آپ لوگوں کو آزادیٔ رائے کا حق نہیں دیں گے تو لوگ فزیکل ہوں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پہلے قانون سازی کی گئی اور پھر کہا گیا کہ آئیں بات کر لیں، پہلے بحث کی جاتی ہے، پھر قانون سازی کی جاتی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہ یہ کہنا ہے کہ قانون بن گیا ہے اگر کوئی ترمیم کرنا ہے تو آئیں بات کر لیں، نیت کو صاف ظاہر کرتا ہے، 26 ویں ترمیم کی خرابیوں کا پہلے ہی تذکرہ کر چکا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں ججز کی سینیارٹی کے معاملے میں سیاست کی بو آ رہی ہے۔
علی ظفر نے مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ایک آئینی ادارہ ہے، یکم فروری کو ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے کہ آرٹیکل 200 کے تحت 3 ججز کو اسلام آباد ہائی کورٹ تعینات کر دیا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 3 ججز نے اس پر اعتراض کیا کہ انہیں شک تھا کہ یہ ان کی سینیارٹی پر اثر انداز ہو گا، سینیارٹی کے لحاظ سے بننے والے روسٹر کی وجہ سے عجیب و غریب مسئلہ سامنے آیا۔