بانی پی ٹی آئی عمران خان، آرمی چیف کو دو ہفتوں میں تین خط لکھ چکے ہیں،تاہم جنرل سید عاصم منیر اپنے منصب،آئینی و قانونی تقاضوں کی پاسداری کرتے ہوئے یاکوئی بھی ذاتی مصلحت خاطر میں لائے بغیر متذکرہ خطوط کےاپنی ذات تک پہنچنے کے حق میں نہیں۔ یہ خطوط ایسے وقت میں لکھے گئے ہیں جب عمران خان مختلف سزاؤں میں جیل کاٹ رہے ہیں اورانھیں مزید مقدمات کا سامنا ہے۔جمعرات کے روز وزیراعظم ہاؤس میں ترک صدر ،رجب طیب اردوان کے اعزاز میںدیے گئے ظہرانےکے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر کا متذکرہ خطوط ملنے کی نفی کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ایسا ہو بھی گیا تو وہ انھیںپڑھے بغیر وزیراعظم ہاؤس بھیج دیں گے۔اس ضمن میں سیکورٹی ذرائع پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ انھیں کوئی ایساخط نہیں ملا،اور نہ کسی کو ان کے پڑھنے میں کوئی دلچسپی ہے ۔واضح رہے کہ پاک فوج کے سربراہ کوعمران خان کی طرف سے 3،8اور13فروری کو متذکرہ خط بھیجے گئے۔پہلے خط میں پالیسیوں میں تبدیلی کی اپیل کی گئی،دوسرے میں بانی پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا کہ گن پوائنٹ پر26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتی نظام پر قبضہ کیا گیا،جبکہ عمران خان کے وکیل فیصل چوہدری کے مطابق تیسرے خط میں 8فروری2024کے انتخابات میں( مبینہ) دھاندلی کا معاملہ اٹھایا گیا ،اور دہشت گردی کی وجوہات پر بات کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پرشیئر کئے گئے خطوط کے مطابق عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں جیل میں موت کی چکی میں رکھا گیا ہے ،اور یہ کہ میرے سارے کیسوں کے فیصلے دباؤ ڈال کر کروائے جارہے ہیں۔دوسری جانب جیل ذرائع عمران خان کے الزامات کی بارہا تردید کرچکےہیں اور انھیں آرام وطعام سمیت فراہم کی گئی تمام سہولیات کا گاہے بگاہے میڈیا پر تذکرہ بھی ہوتا رہتا ہے۔پی ٹی آئی کے قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ کھلے خط ہیں ،جنھیں ہر خاص وعام پڑھ سکتا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر علی ظفر کے مطابق کھلے خط میں کسی بات کی نشاندہی اور نصیحت کردی جاتی ہے اور لکھنے والا امید رکھتا ہے کہ اس پر عمل ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ جواب چاہتے ہیں،اس لحاظ سے ممکن ہے کہ عمران خان چوتھا خط بھی لکھ دیں۔وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ کے مطابق بانی پی ٹی آئی کا خط فوج کے خلاف بیانیہ اور پراپیگنڈہ کرنے کا بہانہ ہے ،جس کا آرمی چیف نے مختصر اور جامع جواب دیا ہے۔ رانا ثنااللہ کے بقول عمران خان کا آرمی چیف کو خط لکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔بہت سے حلقوں کی جانب سے یہ آرا سامنے آرہی ہیںکہ اپنی جدوجہد میں عمران خان کا آرمی چیف کو خط لکھنا کسی طور مناسب نہیں ،یہ سیاسی وسول عدالتی معاملات میںفوج کو مداخلت کی دعوت دینے کے مترادف ہے،اس کے علاوہ بھی آئی ایم ایف جیسے اداروں کو ڈوبتی معیشت بچانے کیلئےپاکستان کو میرٹ کی بنیاد پردی جانے والی امداد اورقرضوں ،سرمایہ کاری اور رفاہی کاموں سے روکنے کی ترغیب دینا حب الوطنی نہیں۔حالیہ دنوں میں پاکستان آئے ہوئے آئی ایم ایف کے وفد کو پی ٹی آئی کی جانب سےڈوزیئر بھجوانے کی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں گزشتہ اڑھائی سال کے دوران رونما ہونے والے(مبینہ)معاملات کا ذکر کیا گیا ہے۔تجزیہ کاروں کی یہ رائے اہم ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے معاملات سیاسی انداز میںحل کرنے کی کوشش کرتے تو وہ جیل میں نہ ہوتے،آرمی چیف نے صحافیوں کے سوال کا ہرزاویے سے مناسب اور جامع جواب دیاہے۔فوج کہہ چکی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی ڈائیلاگ کا حصہ نہیں بنے گی اور اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ،سیاستدانوں کو بھی اس بات کی پاسداری کرنی چاہئے۔