• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی میں 16 جولائی 2016ء کو ہونے والی بغاوت ابھی تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اُسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سازش بہت گہری ہے جس کی جڑیں بہت مضبوط نظر آرہی ہیں، دوسرے ترکی کے صدر طیب اردوان اِس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مخالف اور باغی عناصر سے ترکی کو پاک کرنا چاہتے ہیں۔ شاید ایسے جیسے چین میں ثقافتی انقلاب لایا گیا تھا۔ فتح اللہ گولن ترکی کی بااثر شخصیت ہیں، اُن کے ہزاروں اسکول، کالج، یونیورسٹی اور ادارے ترکی، امریکہ اور دیگر ممالک میں کام کررہے ہیں۔ اُن کا دائرئہ اثر اتنا زیادہ ہے کہ اگر طیب اردوان اور اُن کے درمیان صلح نہ ہوئی تو ترکی خانہ جنگی یا افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے جو بظاہر حتمی منصوبہ نظر آتا ہے۔ اِس منصو بے کی گہرائی کا اندازہ ا یسےلگایا جاسکتا ہے کہ جن دو ہوابازوں نے روسی طیارہ نومبر 2015ء میں گرایا تھا وہ بھی اِس بغاوت میں شامل تھے، اسکا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ روسی جہاز امریکی ایماء پر گرایا گیاہوگا۔ روسی طیارہ گرانے کے بعد طیب اردوان کا یہ خیال تھا کہ شاید امریکہ اُسکی حمایت کو آئے مگر جب امریکہ نے ترکی کو تنہا چھوڑ دیا تو طیب اردوان نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو معافی کا خط لکھ ڈالا، روسی صدر نے اُسکو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ روس نے ترکی کے خلاف سیاحت کی بندش ختم کردی اور ترکی کے تاجروں کو تجارت کرنے کی اجازت مل گئی۔ دونوں ممالک کوباہمی تعلقات معمول پر لانے میں دلچسپی تھی۔ روس کے تیل کی سپلائی ترکی کے راستے شروع ہوسکتی ہے۔ بحراسود میں دونوں ممالک کا مفاد وابستہ ہے، وہاں امریکہ اپنا بحری بیڑا بھیج چکا ہے۔ ترکی روس سے شام کے معاملات پر مصالحت چاہتا ہے تاکہ کرد علیحدگی پسندوں کو توانائی نہ ملے۔ استنبول ایئرپورٹ پر خودکش حملے کے ساتھ ہی طیب اردوان سرعت کے ساتھ حرکت میں آئے، انہوں نے داعش کو تیل کی سپلائی بند کردی اور سہولتیں فراہم کرنا بھی روک دیا، جو امریکی مفادات پر ضرب تھی اور امریکی گریٹ گیم میں رکاوٹ پیدا ہوگئی تھی۔ یہی نہیں بلکہ ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرلئے، اسرائیل نے ترکی میں حماس کے دفتر کی موجودگی کو قبول کرلیا اور 2010ء میں فریڈم فلوٹیلا میں شہید و زخمی ہونے والے ترک باشندوں کا معاوضہ 21 ملین ڈالرز ادا کردیا۔ اسطرح ترکی نے امریکہ ایران اتحاد میں رخنا ڈالا، دونوں ممالک ترکی اور اسرائیل تنہائی محسوس کررہے تھے، ترکی نے اسرائیل کے تیل کو ترکی کے راستے یورپ بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی۔ دونوں میں تعلقات فطری نہیں ہیں کیونکہ ایک اسلامی ملک ہے تو دوسرا صہیونی، مگر یہ تعلق امریکی مفادات پر ضرب لگاتا ہوا نظر آتا ہے اور یہ بات امریکہ کو پسند نہیں، امریکہ ترکی کی بغاوت کے پیچھے تھا، اِسطرح کا الزام خود ترکوں نے لگایا اور یہ بات بھی کہی کہ ترکی اڈہ انجیرلک جو امریکہ کے استعمال میں ہے، وہاں سے بغاوت نے جنم دیا، وہاں بقول ترکی حکام کے جیٹ طیاروں کو تیل فراہم کیا گیا، باغی وہاں چھپے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے، اِس لحاظ سے اِس بغاوت کو امریکی کھاتے میں ڈالا جارہا ہے۔ بغاوت کی گہرائی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے روسی طیارہ گرایا گیا اور ترکی کو تنہا کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ ترکی کا کرد حصہ کرنل پیٹررالف منصوبہ کے تحت کردستان کا حصہ بنانا تھا، ملک میں دہشت گردی کرائی گئی تو طیب اردوان نے سیاسی فیصلے کر ڈالے، جو امریکہ کو نہ بھائے اور اس نے بغاوت کا فیصلہ کرلیا۔ طیب اردوان نے بغاوت کی ذمہ داری فتح اللہ گولن پر ڈالی کہ وہ امریکی ریاست پنسلوانیا سے اِس بغاوت کو کنٹرول کررہے تھے، ترکی فتح اللہ گولن کی واپسی کا مطالبہ امریکہ سے کررہا ہے، امریکہ نے ثبوت مانگے تو اسکو چار ثبوت فراہم کئے گئے مگر ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ جو ملک ہزاروں افراد کو غیرقانونی طور پر گوانتاناموبے میں حراست میں رکھنے کا مجرم رہا ہو وہ ثبوت کیسے مانگ رہا ہے، شاید اس لئے کہ وہ دُنیا کی واحد سپرطاقت ہے اور اپنے آپ کو دُنیا کی بالادست قوت سمجھتا ہے اور جو بھی اُسکی بالادستی کو کسی بھی وقت چیلنج کرتا ہے تو وہ وہاں فوجی بغاوت کرا دیتا ہے۔ پاکستان میں فوجی بغاوتوں پر ایک مستند شہادت ،قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامہ میں دی ہے اور دوسری اب سینیٹر مشاہد حسین سید نے دی کہ پاکستان میں فوجی بغاوت کے پیچھے امریکی سفارت خانہ رہا ہے، اسی طرح امریکہ ترکی میں بغاوت کرانے میں حصہ لیتا رہا ہے۔
ترکی کے وزیراعظم یلدرم نے الزام لگایا ہے کہ امریکہ دہری پالیسی پر عملدرآمد کررہا ہے۔ ترکی میں ہی نہیں دُنیا بھر میں فتح اللہ گولن کی جڑیں بہت مضبوط ہیں کیونکہ وہ ترکی اور دُنیا بھر میں ہزاروں ادارے چلا رہے ہیں اور اُن کے ایماء پر طیب اردوان نے جب دونوں کے درمیان دوستی تھی، ہزاروں جج اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، ڈین لگائے اُن کو اب وہ نکال رہے ہیں، یہ صورتحال اگر ایک خاص حد سے آگے بڑھی تو الٹی بغاوت ہوسکتی ہے۔ اسکا خیال طیب اردوان کو رکھنا چاہئے، مزید برآں ابھی تک ترکی کی بغاوت کی جڑوں تک نہیں پہنچا جا سکاہے۔ کچھ ترک فوجی یونان بھاگ گئے ہیں وہاں سے مجتمع ہو کر وہ ترکی کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں، 6 جیٹ طیارے، 46 ہیلی کاپٹر اور ایک بحری جہاز غائب ہے، وہ حملہ آور ہوسکتے ہیں، اسلئے طیب اردوان کو تحمل و تدبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ایسے حالات میں معاملہ فہمی کے ساتھ سختی کو بروئے کار لایا جاتا ہے، ورنہ نرم پڑتے ہی پلان بی شروع ہوجاتا ہے۔ یہ بات طیب اردوان نے خود کہی ہے کہ انہوں نے امریکی صدر باراک اوباما کو اِسکی پہلے سے اطلاع دیدی تھی کہ ترکی میں بغاوت کیلئے فتح اللہ گولن کام کررہا ہے، مگر امریکی صدر نے اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا ۔اردوان فتح اللہ گولن کو سزائے موت دینا چاہتے ہیں مگر ترکی میں سزائے موت نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ ترکی نے یورپ میں شمولیت کے شوق میں یورپ کے کہنے سے یہ ممنوع قرار دیدی ہے اور اگر اب اُسکو دوبارہ لاگو کرتے ہیں تو یورپی ممالک کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم امریکہ کے کئی اسٹرٹیجک مفادات خطرے میں پڑے ہیں۔ اب جبکہ ترکی اور امریکہ کے درمیان ٹھن گئی ہے، اسکےواحد فضائی اڈے کا استعمال بھی امریکہ کیلئے مشکل ہوگیا ہے، ترکی اور روس کے درمیان تعلقات بڑھتے ہیں تو بحراسود میں امریکہ پر اسٹرٹیجک دبائو پڑے گا۔ اس صورت حال کے پیش نظر روسی صدر نے ترکی کے صدر طیب اردوان کو فون کیا اور بغاوت ناکام ہونے پر اُن کو مبارکباد دی اور تعاون کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ چار روز بعد امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اردوان کو فون کیا اور معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کا ارادہ اظہار کیا، جو وقت کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ سب ایک طرف مگر صورتحال کافی سنگین ہے اور امریکہ نے اپنی ہٹ دھرمی نہیں چھوڑی ہے، وہ اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ مگر ہماری خواہش ہوگی کہ طیب اردوان زیادہ تدبر اور ذرا ٹھہر کر صورتحال کا جائزہ لیں اور صورتحال کو اپنی دسترس میں رکھیں۔ کیونکہ بغاوت ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے، وہ کئی روپ میں ظاہر ہوسکتی ہے اور ہر روپ کا توڑ طیب اردوان کے پاس ہونا چاہئے۔
تازہ ترین