جب 2022 میں پاکستان شدید سیلاب کی زد میں آیا، تو نہ صرف ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا بلکہ ایک رات میں ہزاروں خواب ٹوٹ گئے، گاؤں مٹ گئے، اور نسل در نسل ایک ہی زمین پر بسی قوم ماحولیاتی پناہ گزین بن گئی۔ مگر ان اعداد و شمار سے زیادہ دل کو چھو لینے والی وہ کہانیاں ہیں جن میں انسانیت کی اصلیت چھپی ہے۔ ایسی ہی رازیہ کی کہانی ہے، سندھ کی ایک دیہاتی ماں جس کے چار بے غرض بچے آج بھی امید کی کرن بنے ہوئے ہیں۔ رازیہ اور اس کا خاندان اپنی چھوٹی سی کاشت کاری سے زندگی گزار رہے تھے۔ وہ زمین کی مہک، موسموں کی روانی اور بارش کے بعد کی زرخیز مٹی سے اتنی محبت کرتے تھےکہ ہر قطرہ ان کے لیے زندگی کا پیغام تھا۔ مگر قدرت نے اپنا رنگ بدلا۔ بعض برسوں میں اتنا پانی آتا کہ کھیت ایک پل میں بہہ جاتے، اور بعض سال زمین ایسی خشک ہو جاتی کہ دراڑیں گہرائیوں میں کھود دیتیں۔2022 کا سیلاب رازیہ کی دنیا ہی بدل کر رکھ گیا۔ان کا گھر، فصلیں اور تحفظ ایک لمحے میں فنا ہو گئے۔ انہیں ایک بھیڑ بھاڑکے امدادی کیمپ میں پناہ لینی پڑی جہاں نہ صرف بھوک اور بیماری نے ان کی جان کو لرزا دیا بلکہ ہر لمحہ خوف اور بے یقینی کا بوجھ بھی ان پر سنگین سایہ بن گیا۔ رات کے سناٹے میں، جب سب سو گئے، رازیہ اپنی بیٹیوں کی چپ چاپ نگرانی کرتی رہی، دل میں درد کے ساتھ ایک نیا حوصلہ جگاتی رہی۔ یہ صرف درجہ حرارت یا پگھلتی برف کا مسئلہ نہیں ہے یہ اُن مائوں کی داستان ہے جو اپنے بچوں کے لیے کھانا قربان کر دیتی ہیں، اُن لڑکیوں کی کہ جنہیں پانی کے لیے اسکول چھوڑنا پڑتا ہے، اور اُن عورتوں کی کہ جن کا کوئی ٹھوس بندوبست نہیں ہوتا کہ وہ اپنے اور اپنے پیاروں کی حفاظت کر سکیں۔ سب سے بڑی ناانصافی یہ ہے کہ رازیہ جیسی عورتیں اس آفت کی ذمہ دار نہیں ہوتیں۔ نہ وہ آلودہ صنعتیں چلاتی ہیں، نہ وہ پالیسیاں بناتی ہیں جو ہمارے ماحول کی تقدیر طے کرتی ہیں، پھر بھی وہ سب سے زیادہ درد اور نقصان اٹھا رہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی نے پہلے سے موجود نابرابریوں کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ دنیا کے 70فیصد غریب اسی دکھ میں ہیں۔ عورتیں دنیاکی 50سے 80فیصد غذا پیدا کرتی ہیں مگر زمین کا صرف 20فیصد حصہ ان کے نام ہے۔ آفات کے وقت، عورتوں کے مرنے کا خطرہ مردوں کے مقابلے میں 14گنا زیادہ ہوتا ہے،یہ اکثر اس لیے کہ ان کے پاس ابتدائی خبروں کا سہارا نہیں ہوتا، وہ تیرنا نہیں جانتیں یا ان پر بچوں اور بزرگوں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جو بچ جاتی ہیں، ان کی زندگی میں مشکلات اور بڑھ جاتی ہیں۔ بے گھر ہونے والوں میں 80فیصد عورتیں اور بچے ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے لوگ اپنے گھروں سے محروم ہوتے جاتے ہیں، عورتیں اسمگلنگ، جنسی تشدد اور زبردستی شادی کے خطرات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ 2010کے ہیٹی زلزلے اور 2004کے انڈونیشیا کے سونامی نے ہمیں یہ تلخ حقائق بے باک انداز میں دکھائے۔ پھر بھی، جب ہم حل تلاش کرنے کی بات کرتے ہیں تو عورتوں کی آواز اکثر خاموش گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ وہ ریڑھ کی ہڈی ہیں جو اپنے خاندان اور معاشرے کو زندگی دیتی ہیں، مگر انہیں زرعی امداد کا صرف ایک معمولی حصہ ملتا ہے۔ جہاں زمین کی ملکیت اور مالی وسائل کی کمی ہے، وہاں عورتیں اکثر قرض یا کاشتکاری کی مدد سے محروم رہ جاتی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عورتیں صرف دکھ کی شکار نہیں بلکہ وہ ہمارے لیے امید کی کرن بھی ہیں۔ دنیا بھر میں، عورتیں جذبے اور لگن کے ساتھ پائیدار ترقی کی جدوجہد کر رہی ہیں، چاہے وہ پاکستان کے چترال میں ماحول دوست ہنڈی کرافٹس کے ذریعے ہو، بنگلہ دیش میں تیرتے ہوئے کھیت بنا کر ہو، یا روانڈا میں جنگلات کی بحالی کے لیے ہو۔ اعداد و شمار بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب عورتیں قیادت کرتی ہیں تو موسمیاتی اقدامات مضبوط اور دیرپا ثابت ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موسمیاتی فیصلہ سازی میں عورتوں کا کردار اب بھی اتنا نمایاں نہیں جتنا ہونا چاہیے۔ اگر ہم اپنی زمین اور مستقبل کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں عورتوں کو مرکز میں رکھنا ہو گا۔ ہمیں ان کی بات سننی ہو گی، ان پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی، اور ان کی قیادت کو فروغ دینا ہو گا۔ کیونکہ آج بھی دنیا کی کل موسمیاتی مالی معاونت کا صرف ایک نہایت معمولی حصہ عورتوں تک پہنچتا ہے۔ ہمیں بے گھر عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرنی ہوگی اور لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینا ہو گا کیونکہ تعلیم وہ طاقت ہے جو بدلاؤ کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ موسمیاتی بحران کوئی دور دراز خطرہ نہیں یہ ابھی ہمارے آس پاس ہے، یہ رازیہ جیسی لاکھوں عورتوں کی زندگیاں بدل چکا ہے۔ ہمیں اپنے دل کی گہرائیوں سے یہ سوال اٹھانا ہوگا کیا ہم انہیں اکیلے یہ جنگ لڑنے دیں گے؟ آئیں، ہم عورتوں کو صرف متاثرہ نہ سمجھیں بلکہ ان میں چھپی قیادت، حوصلے اور محبت کو سراہیں۔ کیونکہ جب عورتیں بلند ہوتی ہیں تو پورا معاشرہ بلند ہوتا ہےجب انہیں اپنی جگہ ملتی ہے تو بہتر فیصلے ہوتے ہیں، اور جب وہ قیادت کرتی ہیں تو دنیا نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ پھلتی پھولتی ہے۔ کارروائی کا وقت کل نہیں، نہ اگلے سال، نہ جب اگلی آفت آئےوقت ابھی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں ان عورتوں کی آواز سننی ہے جنہوں نے اس جدوجہد کا آغاز کیا جب دنیا نے ان کی طرف توجہ ہی نہیں دی تھی۔اب انکے ساتھ کھڑے ہونے، ان پر سرمایہ کاری کرنے اور ان کی قیادت کو اپنانے کا وقت ہے۔ کیونکہ اگر ہم ایسا کریںگے تو امید باقی رہے گی صرف عورتوں کیلئے نہیں بلکہ ہم سب کیلئے۔