IMF کے 7ارب ڈالر کے قرض پروگرام کا پہلا جائزہ مارچ 2025ءمیں متوقع ہے اور IMF شرائط کے مطابق زراعت کے شعبے پر ٹیکس لگانا بھی شامل ہے جس کیلئے چاروں صوبوں نے زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنے کے قوانین منظور کرلئے ہیں جن کا اطلاق جنوری 2025ءسے ہوگا۔ پاکستان کے آئین کے مطابق ملک کے ہر شعبے سے ہونیوالی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا قومی اسمبلی کا اختیار ہے تاہم آئین میں زرعی شعبے کی آمدنی پر ٹیکس کے نفاذ کو صوبائی معاملہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں زرعی ٹیکس کی تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھارت کی طرح پاکستان نے بھی ’’انڈین انکم ٹیکس ایکٹ 1922‘‘ کے تحت زرعی آمدنی کو انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا تھا۔ 1973ء کے آئین کے تحت زرعی انکم کو صوبائی معاملہ قرار دیا گیا، 1996-97ء میں تمام صوبوں نے زرعی زمین اور آمدنی پر کسی نہ کسی شکل میں زرعی انکم ٹیکس نافذ کیا لیکن زرعی ٹیکس سے آمدنی GDP کے ایک فیصد سے بھی کم رہی حالانکہ زراعت کا ملکی GDP میں 20فیصد اور ملازمتوں میں 38.5 فیصد حصہ ہے۔ اگر ہم زرعی سیکٹر کا ملکی معیشت کے دیگر دو اہم سیکٹرز صنعت (انڈسٹری) اور خدمات (سروس) سے موازنہ کریں تو صنعتی سیکٹر کا ملکی GDP میں بھی حصہ تقریباً 20فیصد ہے لیکن صنعتی سیکٹر سے ریونیو کی وصولی 70فیصد ہے جبکہ یہ سیکٹر 25 فیصد ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح سروس سیکٹر کا GDP میں حصہ 60فیصد اور ملازمتیں فراہم کرنے میں 37فیصد ہے لیکن ٹیکس وصولی میں اسکا حصہ بمشکل 29فیصد ہے۔ زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ پر میں نے 2010ءمیں کالم تحریر کیا تھا لیکن آج 15 سال بعد بھی ملکی ٹیکس نظام کی یہی صورتحال ہے اور زرعی شعبے کا ٹیکسوں کی ادائیگی میں کوئی حصہ نہیں جبکہ صنعتی شعبے اور تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ خدمات کا شعبہ بھی GDP میں 60فیصد حصے کے بجائے 29فیصد ٹیکس ادا کررہا ہے۔پاکستان میں GDP میں مجموعی ٹیکس کی شرح 10فیصد ہے جبکہ خطے کے دیگر ممالک میں GDP میں ٹیکس کی شرح 15 فیصد ہے جسکی بڑی وجہ ملکی معیشت کے بڑے حصے کا غیر دستاویزی ہونا ہے۔ ماضی کی حکومتوں نے 2 سے 3 فیصد اضافی ٹیکس وصول کرنے کیلئے ٹیکس نادہندگان کیلئے نان فائلر کیٹگری متعارف کرائی تھی جس کی وجہ سے معیشت کو دستاویزی شکل دینے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی لیکن اب FBR نے ٹیکس قوانین میں تبدیلی کیلئے قومی اسمبلی کو سفارشات بھیجی ہیں جس میں نان فائلر کیلئے پراپرٹی خریدنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریونیو کی ذیلی کمیٹی جسکا میں بھی ممبر ہوں، کی چیئرمین FBR اور اُن کی ٹیم کیساتھ کئی میٹنگز ہوئیں اور FBR نے آباد کی مشاورت سے کمیٹی کی مناسب ترامیم پر اتفاق کیا ہے جس پر میں چیئرمین FBR راشد محمود لنگڑیال اور اُنکی ٹیم کا مشکور ہوں۔زرعی ماہرین کا خیال ہے کہ ایگریکلچر ٹیکس کے نفاذ سے حکومت کو 69.5ارب روپے وصول ہوسکیں گے لیکن زمینداروں نے زرعی ٹیکس سے بچنے کیلئے اپنی زمینیں فیملی ممبران کے نام منتقل کردی ہیں تاکہ ان پر اونچا ٹیکس ریٹ نہ لگ سکے۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے زرعی انکم ٹیکس کے منظور شدہ قوانین کے مطابق 6 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر زرعی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا تاہم 12 لاکھ روپے تک زرعی آمدنی پر 15 فیصد ٹیکس، 12 لاکھ سے 16 لاکھ روپے آمدنی پر فکس ٹیکس 90ہزار روپے اور زرعی ٹیکس 20 فیصد، 16 لاکھ سے 32لاکھ آمدنی پر فکس ٹیکس ایک لاکھ 70 ہزار روپے اور زرعی ٹیکس 30فیصد، 32 لاکھ سے 56 لاکھ آمدنی پر فکس ٹیکس 6 لاکھ 50 ہزار روپے اور زرعی ٹیکس 40فیصد، 56 لاکھ روپے سے زائد آمدنی پر فکس ٹیکس 16 لاکھ 10 ہزار روپے اور زرعی ٹیکس پر 45 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ IMF کے مطالبے پر ہم نے زرعی ٹیکس کی شرح 15فیصد سے بڑھاکر 45 فیصد تو کردی ہے لیکن اس پر عملدرآمد ایک سوالیہ نشان ہے۔ اسکے علاوہ 15کروڑ سے زائد زرعی آمدنی پر ایک فیصد اور 50کروڑ روپے سے زائد آمدنی پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا۔ سندھ بورڈ آف ریونیو کے مطابق کارپٹ فارمنگ کی چھوٹی کمپنیوں پر 20فیصد اور بڑی کمپنیوں پر 29فیصد ٹیکس لگے گا۔ اسکے علاوہ 25 ایکڑ یا اس سے بڑے فارم ہاؤسز کی آمدن کا تخمینہ 670 ارب روپے لگایا گیا ہے اور زرعی ٹیکس نہ دینے پر 10سے 50ہزار روپے جرمانہ بھی عائد ہوگا تاہم لائیو اسٹاک سیکٹر پر ٹیکس کی چھوٹ برقرار رہے گی۔گزشتہ سال ملکی GDP میں سب سے بہتر کارکردگی زراعت کے شعبے نے کی جو 6.4 فیصد تھی لیکن زراعت کے شعبے سے وصول کیا جانیوالا مجموعی ٹیکس بمشکل 4ارب روپے تھا جو ملک کی مجموعی ٹیکس وصولی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ زرعی ٹیکس کی وصولی کو کامیاب بنانے کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ڈیٹا شیئرنگ اور FBR کو اپنی کیپسٹی بڑھانا ہوگی تاکہ ملکی معیشت کے تمام شعبے اپنے اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرسکیں نہیں تو قرضوں پر انحصار ہمارا مقدر رہے گا۔