• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی کوریا: 6 مہینے سیاسی عدم استحکام کے بعد کل نئے صدر کا انتخاب کیا جائے گا

—تصویر بشکریہ غیر ملکی میڈیا
—تصویر بشکریہ غیر ملکی میڈیا

جنوبی کوریا میں 6 مہینے سیاسی عدم استحکام کے بعد کل نئے صدر کا انتخاب کیا جائے گا۔ ان انتخاب کو جنوبی کوریا کے علاوہ خطے میں بدلتی صورتحال میں اہم تصور کیا جار رہا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جنوبی کوریا کے گزشتہ صدر یون کی معزولی کے بعد کل ہونے والے انتخابات بہت اہم پیشرفت ہیں۔

صدارتی انتخاب کی دوڑ کے مد مقابل

لی جئی میونگ جنوبی کوریا کے اعتدال پسند اپوزیشن رہنما ہیں، جو انسانی حقوق کے رہنما کے طور پر سیاست میں وارد ہوئے، اس انتخاب سے قبل بطور میئر اور گورنر خدمات انجام دے چکے ہیں، وہ قانون ساز بھی رہے اور 2022 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں بہت کم فرق سے ہار گئے تھے۔

اُن پر جنوری 2024 میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا، جب وہ ایک عوامی اجتماع میں شرکت کر رہے تھے کہ ایک شخص نے ان کے گردن میں چھرا گھونپ دیا تھا۔

لی جئی میونگ کا نام دوبارہ خبروں کی زینت جب بنا، جب گزشتہ صدر یون نے 3 دسمبر 2024 کی رات کو ملک میں مارشل لاء لگا کر فوج پارلیمنٹ میں بھج دی۔

لی جئی مونگ ان چند قانون سازوں میں تھے جنہوں نے اسمبلی پہنچ کر فوج کو مارشل لاء اٹھانے کےلیے ایمرجنسی ووٹنگ کےلیے مجبور کیا۔

وہ لائیو اسٹریمنگ کرتے خاردار تاروں کو پھلانگ کر اسمبلی کی بلڈنگ میں داخل ہوئے، جس منظر کو کئی لاکھ افراد نے دیکھا۔

لی نے سیاسی اور معاشی اصلاحات کا وعدہ کیا ہوا ہے، وہ صدر کے مارشل لگانے کے حق کی صلاحیت پر مزید کنٹرول اور موجودہ 5 سالہ مدت کے بجائے 2 سے 4 سال صدارتی اجازت دینے کےلیے آئین میں تبدیلیاں کروانا چاہتے ہیں۔

اس صدارتی لیکشن میں لی جئی مونگ کے مدِ مقابل قدامت پسند پیپلز پاور پارٹی (پی پی پی) کے رہنما کم مون سو ہیں۔

کم مون سو لیبر منسٹر کے طور پر کام کرچکے ہیں، انکی عمر 73 سال ہے، ان کا شماز مزدوروں کے حقوق میں آواز اٹھانے والوں میں ہوتا ہے۔

کم مون سو اپنے ووٹرز سے وعدہ کیا ہے کہ وہ سیاسی، عدالتی اور الیکشن کے نظام میں بہتری لائینگے، نظام پر عوا م کا اعتماد بحال کرینگے ،انکی الیکشن مہم اس بندیادی نقطے پر ہے کہ ملک کی پالیسیاں کاروبار میں میں مددگار ہونی چاہئیں، ٹیکس کم اور کاروبار میں آسانیاں لائی جانی چاہئیں، وہ نئی ٹیکنالوجی اور ایٹمی توانائی کے بھی حامی ہیں۔

اس الیکشن میں دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما اور آزاد  امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید