یوں تو پوری نوعِ انسانی پیار و محبّت اور ہم دردی کی ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے کہ کسی بھی شخص کا درد یا غم دوسرے کو بھی غم زدہ کردیتا ہے، لیکن خاص طور پر قدرت نے انسانی خاندانی نظام کچھ اس طرح تشکیل دیا ہے کہ اگر خاندان کے کسی ایک فرد کوبھی تکلیف پہنچتی ہے، تو اس کا درد خاندان بھر کے افراد محسوس کرتے ہیں۔
کچھ ایسے ہی لمحات سے ہم اُس وقت گزرے، جب میرے بھتیجے، کیپٹن زوہیب الدین نے خیبر پختون خوا میں ایک معرکے کے دوران جامِ شہادت نوش کیا اور اُس کی جدائی ہمیں ایک ایسے کرب میں مبتلا کرگئی، جس کی کسک تمام زندگی محسوس ہوتی رہے گی۔
کیپٹن زوہیب الدین شہید کے والد، احسام الدین چغتائی میرے تایا زاد بھائی، ناصرالدین چغتائی کے صاحب زادے ہیں۔ ہم شہادت کی مبارک باد دینے اُن کے گھر پہنچے، تو انہوں نے زوہیب الدین کی شہادت کی تفصیل کے ساتھ بچپن کے کچھ واقعات بھی بڑے حوصلے اور صبرو تحمّل کے ساتھ سُنائے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ہمیں رات کو پہلے زوہیب کے زخمی ہونے کی اطلاع ملی اور تھوڑی ہی دیر بعد فرنٹیئر کور، پشاور سے اس کی شہادت کی اطلاع آگئی۔
دراصل، افواجِ پاکستان کی طرف سے یک دَم شہادت کی خبر اس لیے نہیں دی جاتی کہ لواحقین اچانک شہادت کا سُن کرخود کسی حادثے کا شکار نہ ہوجائیں۔ بعدازاں، شہادت کی خبر، تمام ٹی وی چینلز پر تفصیل سے نشر کی گئی اور اخبارات میں بھی لیڈ اسٹوری کے طور پر شائع ہوئی۔
چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل عاصم منیر، صدرِ پاکستان آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کے تعزیتی بیانات نشر ہوئے اور اگلے روز شہید کی نمازِ جنازہ پارک ویو کے قبرستان میں ادا کی گئی، جس میں وزیراعظم پاکستان، کور کمانڈر، لاہور سیّد عامر رضا سمیت حکومتِ پاکستان کی دیگر اہم شخصیات اور افواجِ پاکستان کے نمائندوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔‘‘ احسام الدین کی باتوں سے صبرو تحمّل اور ایمان کی مضبوطی صاف نظر آرہی تھی۔ وہ کسی چٹان کی مانند مضبوط محسوس ہوئے۔
اُن کہنا تھا کہ ’’شہادت ایک ایسا اعزاز ہے، جو صرف وہی حاصل کر سکتا ہے، جس کے دل میں ایمان زندہ ہو۔اور اسی سبب اللہ تعالیٰ نے شہید کو بے شمار اعزازات سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قرآنِ پاک میں فرماتا ہے کہ’’ شہید زندہ ہیں، اُنھیں مُردہ نہ کہو۔‘‘ تو پھر ہم اپنے بیٹے کی شہادت پر کیوں افسردہ ہوں، کیوں اس کا سوگ منائیں۔
جب اللہ تعالیٰ، شہید کو سیدھا جنّت ہی میں داخل کردے گا، تو کسی بھی والدین کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی و اطمینان کی بات کیا ہوسکتی ہے۔حکومت نے ہمارے گھر کے سامنے والی سڑک، شہید کے نام سے منسوب کردی ہے۔ اُس پر سرکاری بورڈ بھی لگادیا گیا ہے، تو ہمارا بیٹا تو دنیا و آخرت دونوں جگہ سُرخ رُو ہوگیا، ہمارے لیے یہ کم اعزاز کی بات ہے کہ ہمارا بیٹا وطن کی راہ میں قربان ہوا ہے۔ خود بھی جنّت مکیں ہوگا، ہمیں بھی ساتھ لے کے جائے گا۔‘‘
کیپٹن حافظ محمد زوہیب الدین شہید 22فروری 1999ء کو لاہور، چوہان روڈ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دارِ ارقم اسکول سے حاصل کرنے کے ساتھ دس سال کی عُمر میں قرآنِ پاک حفظ کیا۔2018ء میں انٹرمیڈیٹ کے بعد پاکستان آرمی LC-143 میں شمولیت اختیارکی اور 10اپریل2021ء کو کاکول اکیڈمی، ایبٹ آباد سے بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ پاس آؤٹ ہوکے بلوچستان میڈیم رجمنٹ آرٹلری میں خدمات انجام دیں۔
بعدازاں، 23مارچ 2024ءکو کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئے۔5ستمبر 2024ء کو فرنٹیئر کور، کے پی کے میں تعینات ہوئے اور 30نومبر کو خیبر پختون خوا، شاگئی کے مقام پر دہشت گردوں کے ساتھ بے جگری سے لڑتے ہوئے آٹھ دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔
اسی دوران واپسی پر ایک زخمی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بن گئے اور جام شہادت نوش کیا۔ شہید ایک نیک، قابل، ایمان دار، شریف، بہادر اور ملن سار آفیسر تھے۔ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور قریبی عزیز و اقارب سے انتہائی محبت سے پیش آتے اور بڑوں کی بے پناہ عزت کرتے۔ جلد ہی اُن کی شادی بھی ہونے والی تھی، جس کے لیے لڑکی کا انتخاب بھی کرلیا گیا تھا اور منگنی کے بعد شادی کا ارادہ تھا۔
شہید کی والدہ، شبانہ احسام نے بھی اپنے لختِ جگر کی زندگی کے کئی واقعات سنائے۔ اس موقعے پر اُن کا بھی صبر و تحمّل قابلِ دید تھا۔ انہوں بتایا کہ ’’زوہیب جب آخری بار ملاقات کے لیے گھر آیا، تو اس کا انداز ہی عجیب تھا۔ مجھ سے بارباراس طرح لپٹ رہا تھا، جیسے چھوٹا سا بچّہ ہو۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’بہت سے لوگ ہم سے افسوس کی بجائے مبارک باد دے رہے ہیں۔ الحمدللہ، لوگوں نے ہمارے حوصلے اتنے مضبوط کردیئے ہیں کہ ہمیں یہی لگ رہا ہے کہ زوہیب ہمارے پاس ہے۔
اُس کی ایک عادت تھی کہ جب بھی چھٹیوں میں گھر آتا، تو میرا ہاتھ پکڑ کر گاڑی چلا تا تھا۔‘‘ بلاشبہ، کیپٹن زوہیب شہید اور دیگر شہدائے وطن ہی کے سبب ہم راتوں کو اپنے گھروں میں چین و سکون کی نیند سوتے ہیں کہ ہمارے محافظ تو جاگ رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب زوہیب دسویں جماعت میں پڑھتا تھا، تو مَیں نے ایک بار اُس سے پوچھا تھا ’’بیٹا! بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہو؟‘‘ تو اس نے فوراً جواب دیا تھا۔ ’’انکل! مَیں مُلک دشمنوں کے خلاف لڑنا چاہتا ہوں۔ مَیں اِن شاء اللہ ایک فوجی بن کر اپنے ملک کی حفاظت کروں گا۔‘‘ اور اُس بچّے نے اپنا کہا، سچ کر دکھایا۔ (شہر یار اصغر مرزا، لاہور)