• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

زندگی میں کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے وجود سے ہر سُو بہار رہتی ہے اور پھر اُن کے اچانک دنیا سے رخصت ہوجانے سے ہر طرف غم اور اُداسی کی فضا چھاجاتی ہے، یہاں تک کہ پیچھے رہ جانے والے اُن کے بعد ہنسنا، بولنا تک بُھول جاتے ہیں، زندگی بے معنی سی لگنے لگتی ہے۔ ایسی ہی کیفیت کا شکار ہم بھی اُس وقت ہوئے، جب ہمارے پیارے بابا جان ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے اور آج ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہم اُن کی محبّت، شفقت اور یادیں، باتیں بُھلا نہیں سکے۔ 

میرے پیارے بابا جان محمد راشد محمود ہردل عزیز سماجی و سیاسی شخصیت تھے۔ ایم اے، ایم ایڈ کرنے کے بعد دادا ابّو کے قائم کردہ اسکول میں بطور پرنسپل تعینات ہوئے، تو اسکول کے ہر دل عزیز اور بہت مقبول استاد تھے، تمام طلبہ اُن سے پڑھنا پسند کرتے۔ 

بچّوں کے ساتھ بچّے اور بڑوں کے ساتھ بڑے بن جاتے، ہر کوئی اُن کی محفل میں بیٹھنا چاہتا۔ تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوئے، تو شخصیت میں مزید نکھار آگیا۔ سخاوت کا جذبہ بھی اُن میں کوٹ کوٹ کر بَھرا تھا۔ غریبوں، ضرورت مندوں کی اتنی خاموشی سے مدد کرتے کہ تیسرے کو علم نہ ہوتا۔

باباجان، صرف ہمارے والد ہی نہیں، بلکہ بہترین دوست اور اتالیق بھی تھے۔ انھوں نے ہماری تعلیم و تربیت پر کبھی کوئی سمجھوتا نہ کیا۔ بیٹیوں کو بیٹوں پر فوقیت دیتے، جب کہ نواسوں اور نواسیوں میں تو اُن کی جان تھی۔ اسی طرح اپنے بھانجوں، بھانجیوں، بھتیجوں اور بھتیجیوں پر بھی جان چھڑکتے۔ میرے بابا جان، اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے والدین اوربہن بھائیوں کے لاڈلے تھے، لیکن اُن کا برتاؤ ہر ایک سے مشفقانہ اور مثالی تھا۔ زندگی بھر کسی پر بوجھ نہیں بنے۔ 

سفرِ آخرت کے لیے چلتے پھرتے رخصت ہوئے، 15جون2023ء کو حسبِ معمول صبح سے شام تک ہمارے درمیان رہے، سب گھر والوں سے بیٹھ کر ہنسی خوشی باتیں کرتے ، نواسوں، نواسیوں کو گود میں بٹھا کر کھیلتے رہے۔ رات کو عشاء کے وقت ٹی وی پر مکّہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے لائیو نماز ادا ہوتے دیکھی۔

مَیں بابا کے ساتھ ہی بیٹھی تھی اور وہ مجھے بار بارکھانا کھانے کی تلقین کررہے تھے، پھر عشاء کی نماز ادا کرکے لیٹ گئے، لیکن اسی دوران ان کا بلڈپریشر ہائی ہوا اور وہ گھبراہٹ محسوس کرنے لگے، تو انھیں فوری اسپتال لے جایا گیا، جہاں محض چند گھنٹے زیرِ علاج رہنے کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

میرے بابا،عشاء کی نماز پڑھ کر سوئے تھے اور اذانِ فجر کے وقت اللہ میاں کے پاس پہنچ گئے۔ اُن کی اچانک وفات سے ہماری تو دنیا ہی اجڑ گئی۔ اب بھی شام کو گھر کا مہیب سنّاٹا، ہم بہن، بھائیوں کو کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ اُن کے جانے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے زندگی کی ساری رونقیں ختم ہوگئی ہیں۔ بابا جان کی موجودگی میں ہم سب بہن بھائیوں کے قہقہوں سے گھر ہر وقت گونجتا رہتا تھا، مگر اب ہر طرف سنّاٹا اور اُداسی کا ڈیرہ ہے۔ 

بابا کو ہم سے بچھڑے اگرچہ ایک برس سے زیادہ ہوگیا، مگر اب بھی یقین نہیں آتا کہ وہ ہمارے درمیان نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی کہیں سے آجائیں گے کہ بابا کے بغیر ہم زندگی جی نہیں رہے، بس اپنے زندہ جسموں کو گھسیٹ رہے ہیں ؎ ’’قیامت سے بہت پہلے قیامت ہم نے دیکھی ہے..... تیرا مل کر بچھڑ جانا قیامت اور کیا ہوگی۔‘‘ (اسماء راشد طور ، جہلم)