• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اُن کا وجود، خاندان بھر کے لیے ایک گھنیرے سائے کی مانند تھا
اُن کا وجود، خاندان بھر کے لیے ایک گھنیرے سائے کی مانند تھا

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میرے دادا جی، اللہ دتّا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ پیدائش کے فوری بعد ہی ماں کی محبّت و شفقت سے محروم ہوگئے، شاید اسی لیے خود بہت شفیق، مہربان اور نرم خو تھے۔ والدہ کے انتقال کے بعد ایک رشتے دار خاتون نے انھیں گود لیا، پالا پوسا، جوان کیا اور پھر اپنی بھانجی سے بیاہ کروادیا۔ وہ اپنے والد کے لاڈلے تھے، مگر والد کے انتقال کے بعد محنت مزدوری بھی کی۔ نفاست پسند تھے، ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی۔ 

گھر میں داخل ہوتے ہی اُن کا پہلا کام غسل کرنا ہوتا تھا۔ بحیثیت باپ، شوہر اور دادا بہت اچھے اور مثالی انسان تھے۔ گاؤں میں آس پڑوس کے ساتھ اتنے اچھے تعلقات تھے کہ اتنے سالوں بعد بھی وہ انہیں اچھے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اُنھیں اپنی خُودی بہت عزیز تھی، رشتے داروں کو پیسے کا غرور تھا، وہ کبھی آتے بھی تو مخاطب نہ ہوتے، اُدھر غرور و بڑائی کا یہ عالم تھا اور اِدھر اپنا وقار، خودداری اتنی عزیز تر تھی کہ کبھی جاتے ہوئے کو سَراٹھا کر نہ دیکھا۔ 

خود پر بھی کبھی ترس نہیں کھایا، انتہائی اصول پسند انسان تھے، ہمیشہ اپنی روایات اور اصولوں کی پاس داری کو اہم جانا۔ ہمارے ابّوجی بتاتے تھے کہ ہمیں اپنے باپ کی نگاہ سے معلوم ہوجاتا تھا کہ انہیں کس بات پہ غصّہ ہے، پھر ہمیں دوبارہ وہ کام کرنے کی ہمّت نہ ہوتی۔ 

روزی روزگار کے سلسلے میں جب میرے ابّو جی کو شہر کا رُخ کرنا پڑا، تو خاص طورپر انھیں دو نصیحتیں کیں۔ اوّل، کبھی کسی سے اُدھار مت لینا۔ دوم، کبھی کسی کی ماں، بہن کو غلط نگاہ سے نہیں دیکھنا۔ اللہ کےفضل و کرم سے ابّو جی نے ان کی ہدایات گرہ میں باندھ لیں، جس کے بعد انھیں زندگی میں قدم قدم پر کام یابی نصیب ہوئی۔

داداجی میری پیدائش پہ بہت خوش تھے۔ (اس وقت تک تایا جی کی کوئی اولاد نہیں تھی) مَیں گھر کی پہلی اولاد تھی، میری پیدائش پر کسی نے کہا ’’اگر بیٹا ہوتا تو باپ کا بازو بنتا۔‘‘ تو اسے فوراً ٹوک دیا اور کہا۔ ’’یہی میرا بیٹا ہے۔‘‘ وہ ہمیشہ مجھے ’’بیٹا‘‘ کہہ کر بُلاتے، اپنے ساتھ کھانا کھلاتے۔ امّی کہتیں کہ یہ کھاچکی ہے، تو کہتے۔ ’’کوئی بات نہیں، میرا بیٹا میرے ساتھ کھائے گا۔‘‘ ایک بار گھریلو ناچاقی پر ابّوجی، مجھے اور امّی کو اپنے ساتھ شہر لے گئے، تو دادا جی نے کئی روز تک کھانا نہیں کھایا۔ 

اسی طرح ایک بار بات نہ ماننے پر میری امّی جی نے میرے سر پر کنگھی دے ماری۔ اُس وقت مَیں بہت چھوٹی تھی۔ دادا جی کو معلوم ہوا، تو انہیں بہت بُرا لگا۔ امّی کو تو کچھ نہ کہا، البتہ جب ابّو جی گھر آئے، تو اُن سے کہا کہ ’’بہو کو سمجھادو، آج کے بعد اسے ہاتھ نہ لگائے۔‘‘ 

اب یہ باتیں سوچتی ہوں، تو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا وجود پورے خاندان کے لیے کسی گھنیرے سائے کی مانند تھا۔ میرے داداجی کو2001ء میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلالیا۔ اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت کرے اور جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (بنتِ ارشد محمود، محلّہ شیدو، وزیرآباد)