وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میںبننے والی موجودہ حکومت نے ملک میں معاشی اصلاحات لانے کا انتہائی سنجیدگی سے بیڑا اٹھایاہےاور وہ ٹیکس وصولیوں کا نظام درست اور مثالی دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ بات بجا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا سارا معاشی نظام ان کے ٹیکس کلچر کے گرد گھومتا ہے۔پاکستان میں بھی ہر قسم کی خامی سے پاک ایف بی آر کی شکل میں ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہےجو مثالی ٹیکس کلچر لانے میں حکومت کی مدد کرسکے۔جیونیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں ٹیکس اصلاحات سے متعلق مذاکرے میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو راشد محمود لنگڑیال کی گفتگو یقیناًحکومت اور ملک کے معاشی حلقوں کیلئے انتہائی سوچ وبچار کی متقاضی ہے،جس میں انھوں نےاقتصادی شرح نمو کو معاشی استحکام کی بنیاد قرار دیاہے۔ان کے بقول جادو کی چھڑی (مصنوعی طریقے) سے حاصل ہونے والی ترقی پائیدار نہیں ہوسکتی،بلکہ آہستہ ہونے والی نمو پائیدار معیشت کی بنیاد ثابت ہوگی۔انھوں نے ماضی کی غلطیوں کا حوالہ دیتے ہوئے انھیں مزید دہرانے سے گریز کرنے پر زور دیا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی کی حکومتیں ترقیاتی منصوبے اپنے ہی دور میں مکمل کرنے میں کوشاں رہیں،جس میں عجلت کا پہلو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔یہی بات چیئرمین ایف بی آر کے بیان میں ملتی ہے کہ معاشی اصلاحات کے نتائج جادو کی چھڑی سے حاصل تو ہوسکتے ہیں لیکن ان کے پائیدار ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔چیئرمین ایف بی آر کے نزدیک گزشتہ برس کے دوران کی جانے والی کامیاب حکومتی کوششوں کے بعد اس سے بھی اہم مرحلہ اگلے بارہ ماہ کا ہوگا ،کیونکہ فروری2025تا فروری 2026کے دوران کی جانے والی فیصلہ سازی بہت اہم ہوگی۔اس بات کی توضیح میں وہ کہتے ہیں کہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی بہتر ہوگا تو محصولات کی شرح میں کمی آئے گی۔ان کے اس بیان کے پیچھے مذاکرےکے شرکا ،کی بلند ترین شرح کے حامل ٹیکسوںکے نفاذکی شکایت ہے،اور یہ بات بجا ہے کہ اس وقت ملک کا بمشکل 33فیصد طبقہ ٹیکس ادا کرتا ہےاور ذمہ داری سے ٹیکس ادا کرنے والے یہ افرادٹیکسوں کے بوجھ کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہیں،جن کی اکثریت تنخواہ داروں پر مشتمل ہے۔مذاکرے کے شرکا نےمزید تلخ حقائق کا بھی ذکر کیاجو معاشی نظام کے بگاڑ کا موجب ہیں۔ان کے بقول فرسودہ نظام کے باعث ملک کے پانچ فیصد امیر ترین افراد پر 1500سے1700ارب روپے کے محصولات واجب الادا ہیں۔متذکرہ فورم پر یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ صنعتوں پر مہنگی بجلی اور ٹیکسوں کا بوجھ ہے ،برآمدی شعبے پر جمود طاری ہے،تعمیرات پر 115فیصدکی شرح سے لاگوبھاری بھرکم ٹیکس،اس شعبے کی ترقی میں رکاوٹ ہیں،زرمبادلہ کے ذخائر اب بھی بہت کم ہیں ،جی ڈی پی میں دستاویزی معیشت کا حصہ بہت کم ہے،آئی ٹی، معدنیات اور گارمنٹس سیکٹر میں ترقی کی گنجائش ہے ،ان شعبوںمیں حکومت کو مراعات دینی چاہئیں،جائیداد کی منتقلی پر ٹیکسوں کی شرح بہت زیادہ ہے ،شپنگ اور ایوی ایشن کے شعبے میں اصلاحات لانے کی ضرورت ہے،زراعت پر پوری توجہ نہیں دی جارہی۔اس مذاکرے کا حاصل یہ رہا کہ حکومت کو پرانی غلطیوں کی تلافی کرکے آگے بڑھنا چاہئے،وزیراعظم شہباز شریف معاشی امور سے بخوبی واقف ہیں اور ان کی قیادت میں معاشی اصلاحات کا سفر بخیروخوبی آگے بڑھ رہا ہے۔درپیش موسمی تغیرات اورسیاسی صورتحال سمیت دیگر چیلنجوں کو کامیابی سے سر کرلیا جائے تو پاکستان کے مضبوط معاشی طاقت بننے میں کوئی امر مانع نہیں ،تاہم یہ واضح رہے کہ ان ارادوں میں ذرا سی بھی لغزش ملک وقوم کے مستقبل پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔