گزشتہ ماہ چین کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی ایپ ڈیپ سیک (DeepSeek) نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI)کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے اور اس کی بڑھتی مقبولیت نے امریکہ اور یورپ کی اے آئی کمپنیوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ ایسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ بیان دینا پڑا کہ ’’امریکہ کے پاس سب سے عظیم سائنسدان ہیں اور چینی ایپ ڈیپ سیک کے بعد ہماری انڈسٹری کو جاگ جانا چاہئے۔‘‘ سلیکون ویلی کے معروف سرمایہ کار اور امریکی صدر ٹرمپ کے مشیر مارک اینڈرسن نے بھی ڈیپ سیک آر ون کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) میں بڑی پیشرفت قرار دیا ہے۔
چینی ایپ ڈیپ سیک کو آر ٹیفیشل انٹیلی جنس میں ایک انقلاب کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس نے آئی ٹی ٹیکنالوجی کے موجودہ لیڈروں میں مایوسی کی لہر دوڑادی ہے۔ ڈیپ سیک سے سب سے زیادہ نقصان Nvidia چپ میکر کو ہوا جو اے آئی میں سب سے مہنگی ٹیکنالوجی تیار کرتی ہے اور جس دن ڈیپ سیک ریلیز کیا گیا، Nvidia کے حصص نے اپنی قدر کا تقریباً 17 فیصد کھو دیا اور کمپنی کو 600 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ ساتھ ہی مصنوعی ذہانت کے بڑے ناموں مائیکرو سافٹ، گوگل اور چیٹ جی بی ٹی تیار کرنے والی امریکی ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کی اسٹاک مالیت میں گراوٹ واقع ہوئی۔ واضح رہے کہ چینی ڈیپ سیک کی بنیاد 2023میں جنوب مشرقی چین کے شہر ہانگزو میں انفارمیشن اینڈ الیکٹرونک انجینئر لیانگ وینفینگ نے رکھی تھی۔ اس سلسلے میں انہوں نے ڈیپ سیک کو سہارا دینے والے ایک فنڈ کی بنیاد رکھی اور چین میں ایونیڈیا اے 100چپس کا اسٹور بھی قائم کیا لیکن اب چین کو یہ چپس برآمد کرنے پر پابندی ہے۔ لیانگ کے پاس اس وقت 50ہزار چپس موجود تھیں جنہیں لیانگ نے کم لاگت والی سستی چپس کے ساتھ جوڑ کر ڈیپ سیک لانچ کیا۔ چینی ایپ ڈیپ سیک متعارف کرانے والی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنا ماڈل صرف 6 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار کیا، اس کے برعکس دیگر اے آئی ماڈلز اور چیٹ جی بی ٹی تیار کرنے والی سب سے بڑی مدمقابل اوپن اے آئی نے چیٹ جی بی ٹی کی تیاری میں 600ملین ڈالرز خرچ کئے تھے مگر ڈیپ سیک نے یہی کام صرف 6ملین ڈالر میں انجام دیا جو یقیناً حیران کن امر ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ان حالات میں ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے مالک ایلون مسک نے چیٹ جی پی ٹی کی کمپنی اوپن اے آئی کو 97ارب ڈالر میں خریدنے کی پیشکش کی ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) یعنی مصنوعی ذہانت وقت کے ساتھ ساتھ ہماری روزمرہ زندگی کا اہم حصہ بنتی جارہی ہے اور اس کے استعمال سے ہمارے لئے آسانیاں پیدا ہو رہی ہیں، جن کاموں کو انجام دینے میں پہلے بہت وقت درکار ہوتا تھا، اے آئی ایپس وہی کام اور انفارمیشن بہت ہی قلیل وقت میں فراہم کردیتی ہیں۔ انہی صلاحیتوں کی وجہ سے آج کل ہر طرف اے آئی ٹیکنالوجی کی دھوم ہے لیکن اس کے ساتھ یہ اعتراض بھی کیا جا رہا ہے کہ کہیں مستقبل میں اے آئی ٹیکنالوجی انسانی ذہنوں کا متبادل نہ بن جائے جس سے بیروزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ خدشات کافی حد تک درست بھی ہیں۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کے جہاں ایک طرف مثبت پہلو ہیں، وہاں دوسری طرف منفی پہلو بھی ہیں۔ اے آئی کے ذریعے اب منفی پروپیگنڈا کرنا انتہائی آسان ہوگیا ہے جس سے سیاسی فوائد کے علاوہ الیکشن انجینئرنگ بھی کی جاسکتی ہے۔ چینی ایپ ڈیپ سیک نے امریکی اے آئی کمپنیوں کی مستحکم پوزیشن کو جہاں ایک طرف چیلنج کیا ہے، وہاں ان کی اجارہ داری کو ختم کردیا ہے۔ ڈیپ سیک آنے کے بعد اب دنیا پر امریکی اے آئی کمپنیوں کی اجارہ داری کیلئے نئے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں تاہم پاکستان میں اسمارٹ ڈویلپرز اور ادارے ڈیپ سیک سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور ڈیپ سیک متعارف ہونے کے بعد پاکستان میں اب تک لاکھوں افراد اس سے مستفید ہورہے ہیں۔ اگر حکومت شہریوں کو بندش کے بغیر انٹرنیٹ تک رسائی دے تو ڈیپ سیک پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری کی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ چین نے آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے اور اس شعبے میں امریکی اجارہ داری کو ختم کردیا ہے۔ کچھ ماہ قبل وزیراعظم شہباز شریف نے چین کے دورے کے موقع پر چین کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کمپنی ہواوے کے ہیڈ کوارٹرکا دورہ کیا جہاں چینی کمپنی اور پاکستان کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے مابین فریم ورک معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ ہواوے کے چیئرمین نے وزیراعظم کو ای گورننس، ڈیجیٹل بینکنگ، ٹیلی کمیونی کیشن اور مصنوعی ذہانت کے حوالے تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر ہواوے اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت چینی کمپنی 2لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی بشمول مصنوعی ذہانت کے شعبے میں مفت تربیت فراہم کرے گی۔ توقع کی جارہی ہے کہ یہ نوجوان چین سے آئی ٹی کی نئی ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرکے جب وطن واپس لوٹیں گے تو پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں نہ صرف انقلاب برپا کریں گے بلکہ اُن کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے باعث پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔