وزیراعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے ملاقات کو ریاست کے دو ستونوں کے استحکام و توازن کے حوالے سے مفید کہا جاسکتا ہے۔ آمریت اور جمہوریت کے نظاموں میں سب سے بڑا اور نمایاں فرق اختیارات کی مرکزیت اور تقسیم کا ہے۔ آمریت میں تمام اختیارات ایک ہی مقام پر مرتکز ہوتے ہیں جبکہ جمہوری نظام کا سب سے بڑا وصف چیک اینڈ بیلنس کا طریق کار ہے جو اختیارات کی تقسیم کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ تقسیم اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کا پابند بناتی ہے۔ وطن عزیز کو ماضی کے عشروں پر محیط مسائل اور غلطیوں کی بنا پر جن چیلنجوں کا سامنا ہےان کا تقاضا ہے کہ اداروں کے درمیان ایسی مشاورت جاری رہے جس کے ذریعے تمام ہی اداروں کی کارکردگی زیادہ مفید و موثر بنائی جاسکے۔ دہشت گردی سمیت سرحدوں کے باہر سے منڈلاتے خطرات سے نمٹنے میں مصروف، قرضوں کے بھاری بوجھ اور برسوں کی غلطیوں کے نتیجے میں آنے والی معاشی لاغری سے بے حال قوم کا عزم اپنی جگہ ۔ ہمارے اداروں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اپنی کارکردگی بہتر، موثر اور سبک بنانے کے لئے تسلسل سے اصلاحاتی عمل جاری رکھیں۔ اس باب میں باہمی رابطے اور مشاورت اگر معاملات کو آئینی تقاضوں کی حدود میں رہتے ہوئے بہتر بنانے میں معاون ہوتے ہیں تو ان میں مضائقہ ایسی صورت حال میں نہیں ہونا چاہئے جب ماضی میں ان سے فضا سازگار بنانے کی مثالیں موجود ہوں۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جاری اعلامیے کے بموجب بدھ کے روز چیف جسٹس ہائوس میں ہونے والی ملاقات چیف جسٹس کے ریفارمز ایجنڈے کا حصہ ہے اور وزیراعظم نے منصف اعلیٰ کی درخواست پر ان سے ملاقات کی۔ چیف جسٹس کی طرف سے عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے اجلاس کا ایجنڈا بھیج کر تجاویز مانگی گئی تھیں۔ اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے وزیراعظم کو بتایا کہ وہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے کرتجاویز حاصل کریں گے تاکہ عدالتی اصلاحات پائیدار ہوں۔ اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاونین کے ہمراہ ہونے والی اس ملاقات میں وزیراعظم نے ملک کی مختلف عدالتوں میں طویل مدت سے زیرالتوا ٹیکس تنازعات کے حوالےسے آگاہ کیا۔ وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ان کیسز میں میرٹ پر جلد فیصلوں کی استدعا کی۔ وزیراعظم نے چیف جسٹس کو لاپتہ افراد کے حوالے سے موثر اقدامات میں تیزی لانے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ میاں شہباز شریف نے چیف جسٹس کے جنوبی پنجاب، اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے دوردرازعلاقوں کا دورہ کرنے اور ملک میں انصاف کی موثر و بروقت فراہمی کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے اقدام کو سراہا۔ یاد رہے کہ بدھ کے روز ہونے والی ملاقات سے قبل ماضی میں بھی انتظامیہ اور عدلیہ کے سربراہوں کی ملاقاتوں کی مثالیں موجود ہیں۔ مارچ 2024ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے موضوع پر سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیراعظم شہباز شریف کی ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں جسٹس منصور علی شاہ بھی شریک تھے۔ اسی طرح سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مابین مارچ 2018ء میں ہونیوالی ملاقات کے دوران شاہد خاقان نے ٹیکس مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے حوالے سے بات کی تھی۔ اس وقت ،کہ عدلیہ اصلاحات کی طرف پیش قدمی کے لئے کوشاں ہے، حکومت سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سےمشاورت یقیناً فائدہ مند ہوگی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مذکورہ اصلاحات کے نتیجے میں سائلین کو انصاف کی فراہمی کا عمل آسان اور تیز تر ہوتانظر آئے گا۔