دنیا کے بدلتے بلکہ تیزی سے بدلتے حالات سب کے سامنے ہیں۔ ہم سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی نہیں سمجھتے۔ اس بار دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ہونیوالی ہیں انکے اچھے برے اثرات دنیا والے بڑی دیر تک محسوس کرینگے۔ پاکستان بلاشبہ معاشی طور پر پہلے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں آگیا ہے۔ لیکن کچھ اندرونی لوگ نہیں چاہتے کہ پاکستان بہتر معاشی منزل کی طرف بڑھتا رہے اسلئے وہ ملک میں ہر وقت سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی اپنی ناپاک کوششوں میں مصروف رہتے ہیں جو یقیناً غیر ملکی پاکستان مخالف ایجنڈا ہے۔ ان کوششوں کو تقویت دینے میں کچھ کردار حکومت کا بھی ہے اور وہ کردار یہ ہے کہ حکومتی وزراء اور مشیران اڈیالہ جیل کے بیانات اور خطوط و کہانیوں سے باہرہی نہیں نکلتے۔ اڈیالہ جیل سے بانی پی ٹی آئی کے بیانات، خطوط اور پی ٹی آئی کی منتشر قیادت کے بیک ڈور رابطوں کی تصدیق اور انکار کی اتنی مشہوری خودپی ٹی آئی والے نہیں کرتے جتنی مشہوری حکومتی حلقوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہرحکومتی پریس کانفرنس،ٹی وی ٹاک شو اور سرکاری تقریب کا مقصد وموضوع بانی پی ٹی آئی اور پی ٹی آئی والوں کے بیانات پر جواب الجواب اور ان کو مشورے دینے پر محیط ہوتا ہے۔ گویا ملک میں نہ کوئی اور مسئلہ ہے نہ کوئی ترقیاتی کام اور منصوبے ہیں، نہ مہنگائی ہے نہ ہی عوامی فلاح وبھلائی کے لئے کوئی پروگرام ہے۔ البتہ ایک اور موضوع ٹیکسوں کی بھرمار کا ہے جو اکثر حکومت کی طرف سے ’’ خوشخبری‘‘ کی صورت میں سنایا جاتا ہے ۔ اگر ایس آئی ایف سی نہ بنایا جاتا تو حکومت کے پاس غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اعتماد دلانے کا اور کونسا طریقہ یا راستہ تھا۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی والی بات اب پرانی ہو گئی اب دنیا میں کیا ہورہا ہے اور کیا ہونے جارہا ہے اہم اور قابل غور بات ہے۔حکومت کو چاہئے کہ وہ اڈیالہ جیل اور پی ٹی آئی سے نکل کر عوامی مسائل پر توجہ دے۔ وہ معاملات عدالتوں میں ہیں عدالتیں آئین وقانون کے مطابق ان کے فیصلے کریں گی البتہ اگر کوئی قانون کو ہاتھ میں لینے یا کسی بھی طرح ملک کو نقصان پہنچانے اور ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش کرےاس کیساتھ وہ قانون کے مطابق سختی سے نمٹے۔بلوچستان کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ چند ملک وقوم کے دشمن پاکستان دشمنوں کے آلہ کار بن کر بلوچستان میں بدامنی اور خوف ودہشت پھیلاتے رہے ہیں۔ سیکورٹی اہلکار وافسران جانوں کی قربانیاں دے کر خوارج کو جہنم رسید کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ جہنمی بے گناہ پاکستانیوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور چند روپوں کی خاطر بے گناہ وبے قصور انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگتےہیں۔ اس مسئلے کے مستقل حل کے لئے اب تک کوئی موثر کوشش نہیں کی گئی۔ اگر بلوچستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز اور وفاقی سطح کے اکابرین کو اکھٹا بٹھاکر باہمی مشاورت اور اتفاق سے خلوص نیت کے ساتھ کوشش کی جائے تو یقیناً اس مسئلے کا مستقل حل نکل سکتا ہے۔ یہ فرض کرلینا کہ بلوچستان کے سب لوگ غیر محب وطن ہیں بہت بڑی زیادتی ہوگی مٹھی بھر گمراہوں کو پورا بلوچستان نہیں سمجھنا چاہئے۔ آخر کب تک سیکورٹی ادارے جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہیں گے کہ اور بھی بہت معاملات توجہ طلب ہیں اور کب تک بے گناہ اور غریب پاکستانی اس مسئلے کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ بلوچستان کے احساس محرومی کو ختم کرنا اور اس اہم لیکن لاچار صوبے کواس کا حق دینا اور پھر اس حق کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔ ورنہ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے پاک فوج کی تمام تر کوششیں بے سودہی رہیں گی۔بعض لوگ افغانستان سے مذاکرات کا بار بار ذکر بلکہ اس پر زور دے رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ تواپنے طور پر افغانستان وفود بھیج کرامن قائم کرنے کی فضول باتیں کرتے ہیں جو عملی طور ممکن ہی نہیں ہے۔ جہاں تک افغان عبوری حکومت کے ساتھ مذاکرات کی بات ہے تویہ کوششیںکئی بار ہوچکی ہیں۔ ریاست پاکستان نے متعدد بار شواہد کے ساتھ افغان عبوری حکومت کو شکایات بھی پیش کی ہیں اور پوری دنیا کے سامنے ہے کہ فتنہ الخوارج کو مدد وتعاون افغان حکومت فراہم کرتی ہے۔اگر آج طالبان حکومت تمام دہشت گرد تنظیموں کو افغان سرزمین سے نکال باہر کردیں تو نہ صرف اس خطے میں بلکہ خود افغانستان میں امن قائم ہوگااور افغان عوام بھی سکھ کاسانس لیں گے۔ طالبان حکومت اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کو تسلیم کرے اور ان کے مطابق چلے تو دنیا ان کیساتھ تجارتی وسفارتی تعلقات قائم کرلے اور افغانستان ایک پرامن اور خوشحال ملک بن جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ خود افغان حکومت یہ نہیں چاہتی، وہ صرف افغانستان میں خوف ودہشت کے ذریعے برسر اقتدار رہنے اور خطے میں امن وامان کی مخالف بھارتی ودیگربعض ممالک کی امن دشمن پالیسی میں تعاون کرنےکو اپنی کامیابی سمجھتی ہے۔
امریکہ نے حسب روایت یوکرین کو روس کے خلاف استعمال کرکے چھوڑ دیا بلکہ جنگ کا قصور واربھی یوکرین کو ہی ٹھہرا دیا۔بہت جلد امریکہ بھارت کے ساتھ جو کرنے والا ہے وہ بھی نظر آجائے گا ۔ اس وقت امریکہ دنیا میں گولہ بارود کے بجائے معاشی جنگ لڑنے میں مصروف ہے امریکہ کی اصل توجہ فلسطین پرہے جس کی ابتدا وہ غزہ سے کرنا چاہتا ہے اور اس مقصدکیلئے وہ اسرائیل کو استعمال کرےگا بعد میں اسرائیل بھی یہ سب کچھ بھگتے گا۔ امریکہ کبھی گریٹر اسرائیل نہیں بننے دےگا کہ وہ ایک اور حریف کا اضافہ کیوں کرے اور اگر ایسا کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا عمل دخل ختم ہوجائیگا۔ امریکہ ایران کو اسرائیل کیخلاف استعمال کریگا اسلئے وقتی ڈراوے کے علاوہ امریکہ ایران کیخلاف کچھ نہیں کرنے دےگا۔ امریکہ سعودی عرب کیساتھ بہترین تعلقات کو ترجیح دیگا۔ پاکستان اس خطے میں امریکہ کی ضرورت ہے اسلئے امریکہ چاہے گا کہ پاکستان ترقی کرے اور دونوں ملکوں کے اچھے تعلقات قائم ہوں۔افغان حکومت کے بارے میں بھی امریکہ جلد کوئی فیصلہ کرےگا۔