پاکستان کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، جو عدالتی نظام پر دبائو اور انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا باعث ہے۔اس وقت سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60,000سے تجاوز کر چکی ہے، اعلیٰ عدالتوں میں تقریباً 4لاکھ ، ضلعی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 20لاکھ سے زائد ہے۔
اس طرح ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی مجموعی تعداد 24 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جن میں روز افزوں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ مقدمات کے اندراج و فیصلوں میں توازن کیلئے عدالتوں اور ججوں کی تعداد میں اضافہ بھی ایک حل گردانا جاتا ہے۔اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بادی النظر میں لوئر کورٹس، ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔لاہور سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کچھ جج ٹرانسفر کئے گئے۔ان میں جسٹس سرفراز ڈوگر بھی شامل ہیں جو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق کے بعد سب سے سینئر ہیں۔ ان کو پیونی جج بنا دیا گیا۔اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے5 ججوں کی طرف سے چیف جسٹس کو ری پریزنٹیشن میں کہا گیا کہ جج جس ہائیکورٹ میں تعینات ہوتا ہے اسی کا حلف لیتا ہے۔ ٹرانسفر ہونے پر ججز کو نیا حلف لینا ہوگا۔ سنیارٹی اس کے مطابق ہوگی۔
یہ ری پریزنٹیشن اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ کہہ کر مسترد کر دی کہ ان ججز کو نئے حلف کی ضرورت نہیں ہے۔ اْدھر سپریم کورٹ کے 4 ججز کی طرف سے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کے فیصلے اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی سنیارٹی کا معاملہ طے ہونے تک ملتوی کرنے کا کہا گیا۔ یہ تقاضا کرنے والے عدالت عظمیٰ کے فاضل ججوں میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس منیب اختر،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔ اول الذکر 2 جج صاحبان جوڈیشل کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، بیرسٹر علی ظفر اور بیرسٹر گوہر علی نے بائیکاٹ کیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارا اعتراض تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک اجلاس مؤخر کیا جائے۔ اس اعتراض پر ووٹنگ ہوئی اور اکثریت سے فیصلہ ہوا کہ اجلاس جاری رکھا جائے گا۔اسی اجلاس کے دوران سپریم کورٹ کیلئے ججوں کے ناموں کی منظوری دی گئی۔ 6 نئے مستقل ججز کی تعیناتی کے بعد سپریم کورٹ میں اب مستقل ججز کی تعداد 22ہو گئی ہے جبکہ ایک قائم مقام اور 2 ایڈہاک ججز ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں نئے جج لائے گئے ہیں۔لاہور ہائیکورٹ میں لائے جانے والے ایڈہاک ججز نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا ہے۔دیگر ہائی کورٹس اور لوئر کورٹس میں بھی اسامیوں کے مطابق ججز لائے جا رہے ہیں۔ایسی تعیناتیوں سے یقینی طور پر زیر التوا مقدمات کے تیزی سے فیصلے ہو سکیں گے۔
ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں تعیناتیاں 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ہو رہی ہیں۔ یہ ترمیم آئین کا حصہ بن چکی ہے۔جب تک آئین میں یہ ترمیم موجود ہے اس وقت تک اسی کے مطابق امور اور معاملات چلنے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں تحریک انصاف نے ووٹ نہیں دیا تھا مگر ان کی تجاویز کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اسے حتمی شکل دی گئی تھی۔ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی لانی ہے تو وہ صرف آئین میں ترمیم کر کے ہی لائی جا سکتی ہے۔ آج سیاسی معاشی اور امن و امان کی صورتحال ہر پاکستانی پر عیاں ہے۔ ایسے میں ایک وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ملک و قوم مزید افراتفری اور انتشار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سسٹم میں انتشار مزید عدم استحکام کا باعث بنے گا جسکے اثرات پہلے ہی سے خمیدہ اقتصادیات پر بھی پڑیں گے‘ لہٰذا سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سوچنے اور وسیع تر اتحاد کا حصہ بننے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب انگلینڈ کی ٹیم آج کل بھارت میں موجود ہےT20اور ون ڈے سیرز کھیلنے کیلئے انگلینڈ کے خلاف T20سیرز کیلئے جب بھارتی ٹیم کا اعلان ہوررہا تھا تو سلیکشن کمیٹی کے سامنے2 نام تھے کلکتہ کے ایک کسان کابیٹادھرو جریل اور دوسری طرف لٹل ماسٹر سچن ٹنڈولکر کا بیٹا ارجن ٹنڈولکر۔ لیکن سلیکشن کمیٹی نے ڈومیسٹک سیزن میں دونوں کی پرفارمنس کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیااور کسان کے بیٹے دھرو جریل کو ٹیم میں شامل کرلیا اور کہا کہ ارجن فخرِ بھارت سچن ٹنڈولکر کا بیٹا تو ہے لیکن میرٹ پر پورا نہیں ہے لہٰذا جب میرٹ پر پورا آجائے اور اس کے مقابلے میں دوسرے لڑکے کا میرٹ ارجن سے کم ہوگا تو پھر اس کو ٹیم میں جگہ ملے گی یہ بھارت کے عوام کی ٹیم ہے کسی خاص فرد کی نہیں ہے،آج اگربھارت کی کرکٹ ہم سے بہت آگے نکل گئی ہے تو اس کے پیچھے میرٹ پر سلیکشن ہے رکشے والے کا بیٹا محمد سراج آج اگر بھارت کا مین بائولر بن گیا ہے، گول گپے فروخت کرنے والے کا بیٹا جیسوال اگر بھارت کی ٹیسٹ کرکٹ میں بڑے بڑے ناموں کو پیچھے چھوڑ کر ٹیم انڈیا کا کامیاب اوپنگ بلے باز بن گیا ہے تواس کے پیچھے صرف اور صرف میرٹ ہے۔ ہمارے ہاں مصباح الحق کا بیٹا فہام الحق بغیر میرٹ کے 2 مہینے قبل انڈر 19کی ٹیم میں سلیکٹ ہوگیا اور اس کے مقابلے میں میرٹ پر پورا اترنے والے4 لڑکے پیچھے رہ گئے معین خان کا بیٹا اعظم خان 100 کلو وزن کے ساتھ جو کرکٹ کے لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے لیکن وہ T20ورلڈکپ جیسا بڑا ایونٹ کھیل گیا۔جبکہ غریب کا بیٹا سفیان مقیم چیمپئنز ٹرافی کے اسکواڈ سے باہر ہوگیا ہے فہیم اشرف اچانک ٹیم میں شامل ہوگیا۔ پھر ہم سوال کرتے ہیں کہ ہماری کرکٹ پیچھے جارہی ہے ۔ کرکٹ کیسےآگے بڑھے گی جب ٹیم سلیکشن انصاف ہی پر نہ ہو!!