قائداعظم محمدعلی جناح نے قیام پاکستان کے بعد ،ایران کی جانب سے دوستی اور خیرسگالی کے تین بڑے مظاہرکی نشان دہی کی تھی ۔اہل پاکستان کے ساتھ خیرسگالی اور دوستی کا پہلاایرانی مظہرقائداعظم ریلیف فنڈ میں فراخدالانہ شرکت تھی ۔پھرایران نے سب سے پہلے پاکستان کوایک آزادوخودمختارملک کی حیثیت سے تسلیم کیااوربلاتاخیرسفارتی نمائندوں کا تبادلہ کیااس کے بعد ایران کے سربرآوردہ صحافیوں کا ایک وفدپاکستان آیاجس کے ارکان نے واپس جاکر ایرانی حکام اور عوام کو نئے ملک اور اس کی صورت حال سے متعارف کروایا۔قائدنے ایران کی جانب سے دوستی اور اخوت کے ان تینوں مظاہرکو سراہااور دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان ہم آہنگی،اتحاد مقصد،اور تمام ایشیاکے عوام کے مسائل کی مکمل تفہیم خاص طورپر مسلم عوام کی تفہیم پر زوردیا کیونکہ ایساکرنا عالمی امن اور خوشحالی کے حصول میں ایک اہم کرداراداکرے گا۔ایران میں اقبال اور فکراقبال سے توایک حدتک آشنائی پائی جاتی ہے لیکن ایرانی اسکالرزاور نوجوان نسل کے نمائندوں سے اس موضوع پر گفتگوسے اندازہ ہواکہ ایرانی عوام قائداعظم اور ان کی خدمات کے حوالے سے حیران کن حدتک ناآشناہیں ۔اس کے مقابلے میں پڑوسی ملک کے زعماسے کافی حدتک آشنائی پائی جاتی ہے اور ان کے بارے میں یہاں وہاں فارسی زبان میں کتابیں اور انگریزی کتب کے تراجم بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ راقم الحروف نے ایران آنے کے بعد اس جانب توجہ کی اور ایران کے بڑے انگریزی اخبارتہران ٹائمزمیں اس موضوع پر ایک مضمون لکھاجس میں قائداعظم کی خدمات اور خصوصاً ایران اور پاکستان کے حوالے سے ان کے خیالات کو روشن کیاگیا(اسی اخبار میں اقبال پر مضمون اوریوم قائد پرپاکستانی پریس میں شائع ہونے والے راقم کے مضامین الگ تھے)۔یہی نہیں ایرانی ٹیلی ویژن سحرکے پروگرام’’نیادن‘‘ میں قائداعظم کی شخصیت کے حوالے سے مفصل گفتگوکی جسے بڑے پیمانے پر سراہاگیا۔قائداعظم اور ایران کے حوالے سے موسسہ ایکوفرہنگی میں اردواور فارسی میں خطاب کیا جس میں پہلی بار قائداعظم کی زندگی کے بعض ایسے پہلووں پر روشنی ڈالی گئی جو پہلے روشن نہیں کیے گئے تھے ۔اس موقع پربھی ایرانی ٹیلی ویژن نے راقم کاایک انٹرویوکیا جو اسی روز کی خبروں میں نشر کیاگیا۔یوں اس مرتبہ تہران میں اہتمام سے یوم قائداعظم منایاگیااور پہلی بار ایساہواکہ تہران کی سڑکوں پر قائداعظم کی تصاویرکے بورڈ بھی آویزاں کیے گئے ۔یہ اہتمام شہرداری تہران ، میئرڈاکٹر زاکانی کی جانب سے کیاگیا اور اس کی تحریک ڈاکٹر سعد ایس خان مدیر موسسہ ایکو فرہنگی اور کانون دانشجویان اردوزبان درایران کی جانب سے کی گئی تھی۔تہران یونی ورسٹی،جہاں راقم تدریسی فرائض انجام دے رہاہے، کے مرکزی دروازے پر لگائے گئے بورڈپرقائداعظم کی تصویرکے ساتھ لکھاگیا’’ قائداعظم:ہدایت گر مسلمانان بہ سوی آزادی وکرامت‘‘یعنی قائداعظم، آزادی اور کرامت کی جانب لے جانے والا راہنما۔ نیز قائداعظم کا یہ پیغام بھی لکھاگیا:’’پیام من بہ شماامیدشجاعت واعتماداست‘‘یعنی آپ کیلئے میراپیغام امید بہادری اور اعتماد کاپیغام ہے ۔اس کے ساتھ رہبرانقلاب آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصویرکے نیچے ان کا یہ قول لکھاگیاکہ ’’محمدعلی جناح و…علیہ انگلیسی ھامبارزہ کردندوسختی ہای زیادی متحمل شدند‘‘یعنی محمدعلی جناح اور…نے انگریزوں کا مقابلہ کیااور ان کی جانب سے بہت دشواریاں برداشت کیں۔رہبرانقلاب نے اس سے پہلے 16؍جولائی 2011ء کو صدرمملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کے دوران کہاتھا کہ’’درمبارزات طولانی مردم پاکستان شخصیت ھای ھمچون محمدعلی جناح واقبال لاہوری درخشیدندازویژگی ھای بارز این مبارزات تمسک مردم پاکستان بہ اسلام بود‘‘پاکستانی عوام کی طویل جدوجہدمیں محمدعلی جناح اور اقبال لاہوری جیسی شخصیات چمکیں،اس جدوجہدکی ایک نمایاں خصوصیت پاکستانی عوام کااسلام سے لگاؤ ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال نے جس مبارزت میں قوم کی راہنمائی کی تھی اس کاسلسلہ ہنوزجاری ہے۔ داخلی استحکام سے لے کر بین الاقوامی مشکلات تک اور عالمی امن کے قیام سے کشمیر جیسے مسئلے کے حل تک پاکستانی عوام مسلسل قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔دنیابھر میں اہل پاکستان کی جانب سے ہرسال ۵؍فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایاجاتاہے۔ اس سال بھی یہ دن منایاگیااور اس موقع پر صدر زرداری نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق ِخودارادیت کی خاطر ان کی منصفانہ جدوجہد کیلئے اپنی مکمل اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھنے کے عزم کااعادہ کرتے ہوئے کہاکہ ’’مقامی لوگوں کی مرضی کے خلاف جموں و کشمیر کے بڑے حصے پر مسلسل بھارتی قبضے کے باعث تنازع جموں و کشمیر سب سے پرانے حل طلب بین الاقوامی تنازعات میں سے ایک ہے۔ بھارت انتظامی، عدالتی اور قانونی اقدامات کے ذریعے غیر قانونی طور پر بھارتی زیرِ تسلط جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ تاہم یہ اقدامات کشمیری عوام کے حق ِخودارادیت کے انمٹ جذبے کو دبا نہیں سکتے‘‘
تہران کے پاکستانی سفارتخانے میں سفیر پاکستان جناب محمدمدثرٹیپونے صدرمملکت کا پیغام پڑھ کر سنایااور ہمیں اس بات سے خوشی ہوئی کہ انھوںنے اپنے خیالات کے اظہاراور صدرمملکت کے پیغام کی خواندگی کیلئے اردوکو ذریعہ اظہاربنایا۔ جناب مدثرٹیپوکی جانب سے صدرمملکت کے پیغام اور ڈپٹی ہیڈ آف مشن محترمہ عصمت سیال کی جانب سے وزیراعظم پاکستان کے پیغام کی خواندگی کے بعد راقم الحروف کو خطاب کی دعوت دی گئی ۔راقم نے تاریخی پس منظر میں مسئلہ کشمیرکی اہمیت کواجاگر کرتے ہوئے اسکے خارجی حل کے ساتھ داخلی حل کیلئے اقبال کی پیش کردہ تجاویز کی جانب حاضرین کو متوجہ کیا۔کم لوگ جانتے ہوں گے کہ علامہ اقبال نے ارمغان حجاز کے آخر میں’’ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض‘‘ کے زیرعنوان جو افکار پیش کیے ہیں وہ دراصل اقبال ہی کے خیالات ہیں اور ملازادہ ضیغم لولابی کشمیری ایک تصوراتی شخصیت ہیں ۔ملازادہ کی زبان سے اقبال نے کشمیریوں کی آزادی کاایک لائحہ عمل پیش کیاہے ،راقم نے اپنی تقریرمیں جس کی نشان دہی کی اورشرمناک بیع نامہ امرتسرکے ذریعے مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ کوڑیوں کے مول کشمیر اور اہل کشمیر کی فروخت سے لے کر آج تک مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال، ریاستی جبر اور بھارتی سیکورٹی فورسزاور ان کے حمایت یافتگان کی جانب سے عوام پر روارکھے گئے ظلم وستم کوعالمی ضمیر کیلئے ایک تازیانے سے تعبیرکیا۔راقم کے بعد ایران میں پاکستانیات کے ایرانی ماہر ڈاکٹر علی بیات نے فارسی ادبیات میں کشمیر کے موضوع پر خطاب کیااورسفیرپاکستان کے اختتامی کلمات کیساتھ یہ تقریب اختتام کوپہنچی ۔