• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹیکل 245 والی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کریگی؟ جسٹس امین الدین خان

جسٹس امین الدین خان—فائل فوٹو
جسٹس امین الدین خان—فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت ہوئی۔

دورانِ سماعت بانئ پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا ہے کہ آرمی ایکٹ کالعدم ہو گیا تو بھی انسدادِ دہشت گردی کا قانون موجود ہے، ایک سے زائد فورمز موجود ہوں تو دیکھنا ہو گا کہ ملزم کے بنیادی حقوق کا تحفظ کہاں یقینی ہو گا، آئین کا آرٹیکل 245 فوج کو عدالتی اختیارات نہیں دیتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا کورٹ مارشل عدالتی کارروائی نہیں ہوتی؟ 

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ کورٹ مارشل عدالتی اختیار ہوتا ہے لیکن صرف فوجی اہلکاروں کے لیے سویلینز کے لیے نہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سویلینز کی ایک کیٹیگری بھی آرمی ایکٹ کے زمرے میں آتی ہے، یہ تفریق کیسے ہو گی کہ کون سا سویلین آرمی ایکٹ میں آتا ہے اور کون سا نہیں؟ آرٹیکل 245 کا حوالہ تو اس کیس میں غیر متعلقہ ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آئین میں فوج کو دو طرح کے اختیارات دیے گئے ہیں، ایک اختیار دفاع کا ہے اور دوسرا سول حکومت کی مدد کرنے کا۔

جسٹس امین الدین خان نے وکیل سے سوال کیا کہ آرٹیکل 245 والی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کرے گی؟ جی ایچ کیو پر حملہ ہو تو کیا آرٹیکل 245 کے نوٹیفکیشن کا انتظار کیا جائے گا؟

بانئ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ کوئی گولیاں چلا رہا ہو تو دفاع کے لیے کسی کی اجازت نہیں لینا پڑتی، جب حملہ ہو تو پولیس اور فوج سمیت تمام ادارے حرکت میں آتے ہیں، سپریم کورٹ ماضی میں لیاقت حسین کیس میں یہ نکتہ طے کر چکی ہے، عدالت قرار دے چکی ہے کہ فوج اگر کسی حملہ آور کو گرفتار کرے گی تو سول حکام کے حوالے کیا جائے گا، فوج پکڑے گئے بندے کے حوالے سے سول حکام کی معاونت ضرور کر سکتی ہے، ہر ادارے کو اختیارات آئین سے ہی ملتے ہیں۔

جسٹس نعیم افغان نے وکیل سے سوال کیا کہ اگر فوجی اور سویلین مل کر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ٹرائل کہاں ہو گا؟

بانئ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ ایسی صورت میں ٹرائل انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں ہی ہو گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا؟ یہ سمجھ آ جائے تو آدھا مسئلہ حل ہو جائے گا، آئین میں اس کو واضح لکھا ہے کہ آرمڈ فورسز سے متعلقہ قانون۔

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ آرٹیکل 8 کا ذیلی سیکشن 3 صرف آرمڈ فورسز کے لیے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ سویلین افسر کے خلاف تادیبی کارروائی میں سزا کا اختیار نہیں دیا گیا، ملٹری کورٹ میں سزا کا اختیار دیا گیا ہے، آرمی افسر چھٹی پر جرم سر زد کرے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟ کیا ملٹری کورٹ کا اختیار بہت وسیع ہے یا محدود ہے؟ کراچی میں رینجرز اہلکاروں کا ٹرائل سول کورٹ میں ہوا، آئین پارلیمنٹ بناتی ہے، قانون سازی آئین کے مطابق ہی ہو سکتی ہے، کوئی قانون جو آئین سے مطابقت نہ رکھے نہیں بنایا جا سکتا، ہمارا المیہ یہی ہے کہ قانون کو سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ایف بی علی کیس اتنا اہم کیوں ہے؟

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل پروسیڈنگ کو 1962ء کا آئین قبول کرتا تھا۔

دورانِ سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے بانئ پی ٹی آئی کی جانب سے 9 مئی کی مذمت کا سوال کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں کرفیو لگنے پر فوج آتی تھی تو لوگ پھول پھینکتے تھے، ایک ہی دن میں جی ایچ کیو سمیت مختلف مقامات پر حملے ہوئے، آپ سابق وزیرِ اعظم اور ایک پارٹی لیڈر کے وکیل ہیں، کیا سابق وزیرِ اعظم نے 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے کہ یہ غلط ہوا؟ کیا عدالت میں اپنے تحریری جواب میں مذمت کی گئی ہے؟

وکیل نے کہا کہ بانئ پی ٹی آئی کی متفرق درخواست عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، بانئ پی ٹی آئی نے 9 مئی کی مذمت اپنی تحریری معروضات میں کی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ جو ذمے دار ہیں انہیں سزا دی جائے، مذمت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ بانئ پی ٹی آئی سرکاری مؤقف تسلیم کرتے ہیں۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ مذمت کرنا اچھی بات ہے۔ 

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سوال کیا کہ کیا کوئی وزیرِ اعظم اپنی مقررہ مدت سے زیادہ عہدے پر رہ سکتا ہے؟

وکیل عزیز بھنڈاری نے کہا کہ 5 سال کے لیے آنے والا وزیرِ اعظم 6 سال نہیں رہ سکتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر آپ فوجیوں کی حد تک کورٹ مارشل کو درست مانتے ہیں تو بات آرٹیکل 175 کے دائرے سے باہر نکل گئی۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں سب مل کر ملبہ ہمارے گلے ڈالیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرا خیال ہے بینچ وکلاء کے دلائل کو مکس کر رہا ہے۔

سماعت کل تک ملتوی

ملٹری کورٹ میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

قومی خبریں سے مزید