• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال مارچ کا مہینہ موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ،’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کی بھی نوید سُناتا ہے۔ بڑے بڑے فورمز اور ذرائع ابلاغ کے تمام اداروں کے ذریعے خواتین کے حقوق پر بات ہوتی ہے۔ تحاریر و تقا ریر کے ذریعے خواتین کے حقوق دیئے جانے کے مطالبات دُہرائے جاتے ہیں، خواتین کو مَردوں کے مقابلے میں برابری، آزادی اور مالی خود مختاری دئیے جانے پر بحث مباحثے کیے جاتے ہیں۔ تاہم، کھیتوں کا ایندھن بننے، سٹرکوں پر روڑی کُوٹنے، اینٹوں کے بھٹّے پر مزدوری کرنے والیوں اور گھریلو ملازمائیں ان تمام سرگرمیوں سے بے خبر بس دو وقت کی روٹی کی تلاش ہی میں سر گرداں رہتی ہیں۔

آٹھ مارچ کا دن گزر جاتا ہے اور سال کے باقی 364دن پھر کسی کو عورت کے حقوق یاد نہیں رہتے۔ حلقۂ خواتین، جماعتِ اسلامی وطنِ عزیز کا وہ منظّم گروہ ہے، جو خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرمیاں منعقد کرتا اور زندگی کے ہر شعبے میں ماہر خواتین کی مدد سے سیاسی و معاشرتی خدمتی کاموں میں اپنا فعال کردار ادا کرتا ہے۔

جماعتِ اسلامی، وہ واحد جماعت ہے، جس میں جمہوری روایات بڑی مضبوط ہیں۔ ہماری منظّم جماعت ہماری قوّت اور مخلص کارکن ہمارا اثاثہ ہے۔ یہ خواتین بیک وقت اپنے امیر کی تابع اور اپنی تنظیم چلانے میں بااختیار ہیں۔ہم اپنے معاشرے میں خواتین کو تعلیم یافتہ اور ترقّی کی شاہ راہ پر گام زن دیکھنا چاہتی ہیں، اس کے ساتھ ہمیں اپنی دینی، سماجی روایات اور تعلیمات کی پاسبانی بھی کرنی ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے۔

’’النسا عماد البلاد‘‘ یعنی’’عورت تہذیب کی عمارت کا ستون ہے۔‘‘ ہم اسی ستون کو محفوظ و مضبوط بنانے اور معاشرے میں اس کا فعال کردار دیکھنے کی خواہاں ہیں۔ امسال بھی حلقۂ خواتین، جماعتِ اسلامی پاکستان نے اپنے مستقل جاری سلسلوں کے ساتھ، یوم خواتین کے لیے مختلف النّوع پروگرامز ترتیب دیئے ہیں، جب کہ اِس سال’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کا عنوان ہے’’جہاں آباد تم سے ہے۔‘‘

عورت محض ایک ہستی ہی نہیں، زندگی کا ایک خُوب صُورت رنگ ہے، جس کے بغیر دنیا کی تصویر ادھوری اور پھیکی ہے۔ اس کی محبّت، خلوص اور قربانی سے زندگی میں حُسن، وفا اور احساس کو معانی ملتے ہیں۔ عورت بیٹی ہو، تو رحمت، بہن ہو تو عزّت، بیوی ہو تو محبّت اور ماں ہو تو جنّت کا رُوپ دھار لیتی ہے۔

انسان نے اپنی لاعلمی اور جہالت کے سبب اُس کی حیثیت اور مقام و مرتبے کے تعیّن میں کم ظرفی دِکھائی، جب کہ محسنِ نسواں ﷺ نے اُس کی نماز اور خُوش بُو کے ساتھ پذیرائی کی اور اُسے ایمان، اختیار، آزادی اور اہمیت کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ اب اُس کی مختلف النّوع حیثیتں جہاں کو آباد کرنے اور معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے میں صَرف ہو رہی ہیں۔ 

وہ مکالماتِ فلاطوں نہیں لکھ سکی، مگر اُس کی فکری اور عملی تربیت سے افلاطون تیار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی محنت اور محبّت سے اپنے گھر کو جنّت کا نمونہ بناتی اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتی ہے۔ اِس سال’’یومِ خواتین‘‘ رمضان المبارک کے موقعے پر آرہا ہے، اِس لیے ہم نے اپنی قرآن کلاسز اور رمضان المبارک کے دَوران دیگر جاری سرگرمیوں کو قرآنِ کریم میں خواتین کے حقوق کی اہمیت بیان کرنے اور معاشرے میں اسے رائج کرنے کا عزم کیا ہے۔

مارچ کا مہینہ شروع ہوچکا ہے، پھر’’عالمی یومِ خواتین‘‘کے موقعے پر زور و شور سے عورت کے حقوق کا آوازہ اُبھرے گا، کانفرنسز ہوں گی، مگر عورت کا مقدّر بدلے گا اور نہ اُسے اپنے فرائض کا احساس ہوگا اور نہ ہی اُسے حقوق ملیں گے۔ہم کیوں یہ محرومی، اداسی اور مایوسی اپنی نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں اور اِس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے بلکہ بے حمیتی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔

ہمارے بچّوں کو ہم ماؤں کی موجودگی کے باوجود’’Street Children ‘‘کا نام دیا جا رہا ہے اور ہماری مسلمان خواتین پیرس اور نیو یارک کے شاپنگ مالز میں اپنی دولت اُڑا رہی ہیں۔ کیا ہمیں کوئی احساس ہے کہ ہم کس طرح کے جرم کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ جو دین لے کر آئے، اُس نے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ عورت کو متاثر کیا اور اسے تبدیل کیا۔ اِس کلمے نے اُسے جذبہ حریّت سے آشنا کیا۔ 

اِس’’ لا الہ الا للہ‘‘ نے اسے ہر قسم کے خوف سے آزاد کیا۔ اِس کلمے نے ہمیں جہاں بانی اور جہانگیری سِکھائی۔ ہماری تاریخ بھی فروزاں تھی اور ہمارا جغرافیہ بھی پھیل رہا تھا۔ اُس وقت ہم حُکم ران تھے، علم سے آشنا تھے اور یورپ تاریکیوں، جہالت میں ڈوبا ہوا تھا، مگر پھر ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ ہم علم سے بھی دُور ہوتے چلے گئے اور اخلاقی زوال کا شکار بھی ہوئے۔

پہلے اپنے عقیدے اور اپنے ربّ سے دُور ہوئے، تو ہم نے اپنی شناخت ہی گم کر دی اور آج ہم ایک دوسرے کو قتل کرکے تکلیف، اذیّت میں مبتلا کرکے خوش ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنے زرخیر خطّے کھو دیئے، اپنی آزادی گروی رکھ دی ہے۔یاد رہے، اِس سال اقوامِ متحدہ کے عورتوں کے لیے خصوصی اجلاس کو’’بیجنگ پلس تھرٹی‘‘ کا نام دیا گیا ہے، یعنی بیجنگ کانفرنس کی تیسویں سال گرہ۔

بیجنگ کانفرنس… خواتین کی چوتھی عالمی کانفرنس

یادش بخیر، بیجنگ میں خواتین کی چوتھی عالمی کانفرنس(15ستمبر 1995ء) کے سولہویں مکمل اجلاس میں لائحۂ عمل( BPFA )کی منظوری دی گئی۔ یہ لائحۂ عمل، خواتین کو فیصلہ سازی کا حق دینے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس کے تحت خواتین کی حیثیت بہتر بنانے کے لیے 12اہم اور توجّہ طلب شعبوں، خواتین اور غربت، تعلیم و تربیت، صحت، تشدّد، جنگی صُورتِ حال اور مسلّح تصادم میں عورت کے مسائل، معیشت، حکومت اور فیصلہ سازی میں خواتین کا کردار، خواتین کی ترقّی اور انتظامی طریقۂ کار، خواتین کے انسانی حقوق، خواتین اور میڈیا، ماحولیات اور بچیوں پر کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ دنیا بَھر میں خواتین کی بنیادی آزادیاں، انسانی حقوق، گھر اور کام میں ہر سطح اور ہر مرحلے پر مَردوں کے برابر حقوق دِلانے کی حکمتِ عملی طے ہو جائے۔

سب سے اہم بات یہ تھی کہ مُلکی سربراہان سے لے کر غریب طبقے تک، ہر سطح کی خواتین اِس کانفرنس میں شریک ہوئیں اور اسے بیسویں صدی میں عورتوں کا سب سے بڑا اجتماع قرار دیا جاتا ہے، جس میں تقریباً 30,000 خواتین نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں12مسائل کی نشان دہی کی گئی، جنھیں عورتوں کی بہبود کی راہ میں بڑی رکاوٹ تصوّر کیا جاتا ہے۔ بیجنگ کانفرنس میں جو بنیادی تبدیلی دیکھنے میں آئی، وہ یہ تھی کہ عورتوں کے مسائل سے توجّہ ہٹا کر عورتوں اور مَردوں میں مساوات کے نظریے پر توجّہ مرتکز کی گئی۔

اس کانفرنس میں تسلیم کیا گیا کہ معاشرے کے پورے ڈھانچے، اس میں عورتوں اور مَردوں کے تمام تعلقات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، کیوں کہ تشکیلِ نو کے ذریعے ہی عورت کو مکمل اختیارات مل سکتے ہیں اور وہ زندگی کے تمام شعبوں میں مَردوں کے مساوی فریق بن کر اپنا مقام حاصل کر سکتی ہیں۔ یہ بنیادی تبدیلی اس عزم کی آئینہ دار تھی کہ خواتین کے بھی انسانی حقوق ہیں۔ نیز، صنفی مساوات ایک عالم گیر مسئلہ ہے۔

اس کانفرنس نے متفّقہ طور پر’’اعلانِ بیجنگ‘‘ اور’’پلیٹ فارم فار ایکشن‘‘ منظور کیا، جو اکیس ویں صدی میں عورتوں کی بہبود وترقّی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے’’پلیٹ فارم فار ایکشن‘‘ کی توثیق کرتے ہوئے اپنے ذیلی اداروں، بین الاقوامی تنظیموں، این جی اوز، نجی شعبے اور تمام ممالک پر زور دیا کہ کانفرنس کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ نیز، اقوامِ متحدہ کو’’پلیٹ فارم فار ایکشن‘‘ پر عمل درآمد کی نگرانی کا اہم کام بھی سونپا گیا۔

بیجنگ پلس فائیو کانفرنس

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا خصوصی سیشن برائے خواتین 2000ء، بیجنگ کانفرنس کے پانچ سال بعد’’بیجنگ پلس فائیو‘‘کے نام سے منعقد ہوا، جسے’’ Women 2000 Gender Equality , Development Peace in the Twenty First Century”( سن دو ہزار میں خواتین اور اکیسویں صدی میں صنفی مساوات، امن اور ترقّی)کا عنوان دیا گیا۔

اِس کانفرنس میں تقریباً 189ممالک کے نمائندوں اور تقریباً 1200 این جی اوز نے شرکت کی۔ اِس اجلاس کا مقصد’’بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن‘‘ کا جائزہ برائے عمل درآمد اور آئندہ سالوں کے لیے صنفی برابری کے حصول کے نئے اقدام تجویز کرنا اور اُن پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا تھا۔ 

اجلاس کی افتتاحی تقریب میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے کہا کہ 1990ء کی دہائی میں تسلسل کے ساتھ ہونے والی خواتین کانفرنسز اور حکومتوں کے وعدوں کے باوجود عورتوں کی صنفی برابری حقیقت کی بجائے ایک خواب اور ایک خواہش ہی رہی۔ اِس ایک ہفتے میں اقوامِ متحدہ دنیا کے تمام لوگوں کی توجّہ کا مرکز رہی اور دنیا عورتوں کے مسائل پر زیادہ بہتر طور پر اپنی توجّہ مرکوز کر سکی۔

ہم نے بھی اِن مباحثوں میں شرکت کی۔ مجموعی طور پر اس کانفرنس میں مسلمان ممالک اور ان کی این جی اوز کا کردار اُمّتِ مسلمہ کے انتشار کی ترجمانی کر رہا تھا۔ پاکستانی مشن کا کردار اِس موقعے پر انتہائی حوصلہ افزا رہا۔ اُنہوں نے اس موقعے پر پاکستان کے مفادادت کے خلاف کسی بھی عمل کے حصّہ نہ بننے کے عزم کا اظہار کیا اور پھر اسے نبھایا بھی۔ 

مشن کے ارکان نے دوسرے ممالک مثلاً سعودی عرب، الجزائر، سوڈان، لیبیا، ایران، یہاں تک کہ کیتھولک مذاہب پر عمل پیرا ممالک کے نمائدوں کے ساتھ مشترکہ بلاک بنا کر معاہدے کی دستاویز میں نئے اضافے روکنے میں مؤثر کردار ادا کیا اور اس موقعے پر اسلامی و اخلاقی اقدار کے ضمن میں جو تحفّظات تھے، اُن کا بھرپور دفاع کیا۔

1995ء میں جب سے یہ راہِ عمل عورت کے لیے تجویز کیا گیا، اُس وقت سے مختلف حلقوں میں اس پر بحث جاری ہے۔ مسلمان معاشروں نے اس دستاویز کے کچھ حصّوں پر سخت ردّ ِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ اس کے اکثر مندرجات سے اسلامی تحریکیں متفّق ہیں کہ آج کی جدید تہذیب نے بھی عورت کو بطور انسان وہ حقوق عطا نہیں کیے، جس کی وہ حق دار ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کے مسلمان معاشروں میں بھی اسے پورے حقوق حاصل نہیں، جو اُسےاُس کے ربّ، اُس کے رسول ﷺ اور اس کے دین نے عطا کیے تھے۔

اِس دستاویز کے اُن حصّوں پر اسلامی ممالک کو شدید اعتراضات ہیں، جو ان کی معاشرتی و دینی اقدار اور شعائر کو ملیا میٹ کر دینے والے ہیں، جس میں عورت کو مرد کے مدّ ِ مقابل لا کھڑا کیا گیا ہے یا جس نے خاندان کے ادارے کو سخت خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔

حلقۂ خواتین، جماعتِ اسلامی پاکستان1995ء سے BPFA کا Follow up کررہی ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعتِ اسلامی نے عورت کے ہر عنوان کو موضوعِ بحث بنا کر اپنی دینی اور سماجی اقدار کے مطابق اس کے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی راہیں تلاش کی ہیں۔ ہم عالمی طور پر مسلمان عورتوں کی ایک تنظیم کا حصّہ ہیں اور اس کی ایشین ریجن کی صدارت ہمارے پاس ہے۔ ہم اقوامِ متحدہ کے عالمی پروگرام کو مانیٹر کرتے ہوئے اپنی دینی روایات اور سماجی اقدار کے مطابق اپنے منصوبے بناتی اور اس پر عمل درآمد کرتی ہیں۔

خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن(CSW) کا 69 واں اجلاس 10 سے 21 مارچ 2025 ء تک نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں ہوگا۔ یہ سیشن 1995 میں اپنائے گئے بیجنگ اعلامیے اور پلیٹ فارم فار ایکشن کی30ویں سال گرہ کے موقعے پر ہو رہا ہے۔ اِس کی توجّہ بیجنگ اعلامیے کے نفاذ اور جنرل اسمبلی کے23 ویں خصوصی اجلاس کے نتائج کا جائزہ لینے پر مرکوز ہوگی۔

آئیں! ’’عالمی یومِ خواتین‘‘ کو عزمِ نو کے ساتھ اِس طرح سے منائیں کہ ہم پاکستانی عورت کی آواز بن سکیں۔ پالیسی ساز ادارے ہماری رائے کو اہمیت دیں۔ عورت، اپنے خاندان اور محبّت و حفاظت سے بھرپور رشتوں کی پناہوں میں رہ کر ہی ترقّی کی منازل طے کرسکتی ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کی مظلوم اور مجبور عورت کو محبّت اور احترام دینا ہے اور اسے یہ یقین دلانا ہے کہ ’’جہاں آباد تم سے ہے۔‘‘