• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ بار کا پیکا ایکٹ واپس لینے کا مطالبہ

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔

بار نے ’میڈیا انڈر اٹیک‘ کے عنوان سے مشاورتی اجلاس میں قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا کہ آزادی اظہار جمہوریت کی بنیاد ہے، اسے جبر و زبردستی سے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ ‎پیکا (ترمیمی) ایکٹ کو ناقص قانون سازی قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے ہیں، جو 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی ہے، جو آزادی اظہار کا حق فراہم کرتا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قرارداد میں کہا گیا کہ ‎ پیکا (ترمیمی) ایکٹ 2025ء میڈیا اہلکاروں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، ترامیم آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔

قرارداد میں کہا گیا کہ ‎پیکا قانون فطری انصاف کے اصولوں، بشمول مناسب قانونی عمل کی خلاف ورزی پر مبنی ہے، قانون منصفانہ ٹرائل اور آئین کے آرٹیکل 4، 9 اور 10-اے کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہے۔

بار کی قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ‎پیکا ایکٹ میں ترامیم فوری منسوخ کی جائیں اورآزاد صحافت پر عائد تمام پابندیاں ختم کی جائیں، ایکٹ کی متعدد شقوں کی تعریف مبہم ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے یہ بھی کہا کہ ‎پیکا ایکٹ میں ’جھوٹ‘ اور ’جعلی‘ جیسے الفاظ اور وقوعہ کی جگہ کی واضح تعریف موجود نہیں، کوئی بھی فرد کا مفہوم وسیع ہے، صرف متاثرہ فرد یا فریق تک محدود ہونا چاہیے۔

بار کی قرارداد میں کہا گیا کہ پیکا ایکٹ کے تحت ایک ہی واقعہ پر مختلف مقامات پر متعدد ایف آئی آرز درج کی جاسکتی ہیں، ٹریبونلز کو مکمل طور پر انتظامی اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چاہیے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے، آزاد صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کےلیے مکمل حمایت کرتے ہیں،‎ میڈیا کی آزادی پر کسی بھی قسم کی قدغن جمہوری اقدار اور شفافیت کےلیے خطرہ ہے۔

سپریم کورٹ بار کی قرارداد میں کہا گیا کہ سائبر کرائم اور میڈیا سے متعلق قوانین کو آئینی تحفظات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے.

بار کے ‎اجلاس میں ڈیجیٹل اسپیس میں بڑھتی ہوئی سینسر شپ اور سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن، مواد کی ریگولیشن پالیسیوں، ہتک عزت قوانین اور شہری حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

قومی خبریں سے مزید