• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2018ء تا 2024ءکے عرصے پر محیط غیر یقینی معاشی صورتحال اور بدنظمی کے باعث ،جب ملک دیوالیہ ہونے کی دہلیز پر کھڑا تھااور جیسی تیسی معیشت چلانے کیلئے قرضوںکا حصول ناممکن دکھائی دے رہا تھا،عالمی مالیاتی ادارے کی کڑی شرائط کڑوا گھونٹ سمجھ کرموجودہ حکومت کو قبول کرنا پڑیںتاہم انھیںپرتاثیربنانے میںکوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔اس کی معاشی اصلاحات کاکام ابتدائی مرحلے میں ہےلیکن اب تک کے نتائج نہایت حوصلہ افزااور معاشی اشاریے مثبت دکھائی دے رہے ہیں۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگ زیب نے ملک کے معاشی اشاریوں کو بہتری کی جانب گامزن قرار دیا ہےاور یہی بات صدر مملکت آصف علی زرداری نے اتوار کے روز لاہور میں اقتصادی شخصیات سے گفتگو کے دوران کہی۔وزیر خزانہ کے بقول ایف بی آرمیں اصلاحات لانےپر کام جاری ہے،ٹیکس اتھارٹی کی کارکردگی میں بہتری لارہے ہیں ،تاکہ لوگ ٹیکس کلچر کی طرف مائل ہوں۔اس حوالے سےواضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف 2024-25ءکے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے اور مینوفیکچرنگ کے شعبے پر عائد ٹیکسوں کی شرح میں ہونے والے اضافے پر تشویش ظاہر کرچکے ہیں ،جس سے عام تنخواہ دار آدمی کی قوت خرید میں مزید کمی آئی ہے ۔یہی بات مینوفیکچرنگ کے شعبے میں دیکھنے کو ملی ہے جہاں پیداواری لاگت بڑھنے سے مصنوعات کی قیمتیں نہ صرف تعمیرات، ملبوسات، ادویات اور بعض دوسری ضروریات پر اثرانداز ہوئی ہیں ،عالمی مارکیٹ میں ان کی برآمدات کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران روزمرہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی آئی اور غریب آدمی کو دووقت کی دال روٹی نصیب ہوئی ہے۔بین الاقوامی مالیاتی اداروں،خصوصاً آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اورایشیائی ترقیاتی بینک کی نظریں اس وقت پاکستانی معیشت پر مرکوز ہیں ،قرضوں اور ترقیاتی منصوبوں کیلئے وہ پاکستان کی مدد کرنے پر آمادہ ہیں۔وزیرخزانہ محمد اورنگ زیب ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے شدید مزاحمت کے باوجود پرامید دکھائی دے رہے ہیں ،اس حوالے سے اسلام آباد میں میڈیا کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں انھوں نے تاجر برادری کے ساتھ حکومتی بات چیت جاری رکھے جانےکے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اسے مثبت نتیجے سے ہمکنار ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم معاشی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں ،زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے اور ہمیں معاشی نمو کو تسلسل کے ساتھ آگے لے کر جانا ہے۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ اس سال ترسیلات زر 35ارب ڈالر کے قریب ہوجائیں گی۔وزیراعظم شہباز شریف آنے والے دنوں میں نجی شعبے کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بات ضروری بھی ہے کیونکہ حکومت نقصان میں جانے والے اداروں کی نجکاری کے عمل سے گزر رہی ہے ۔ان اداروں میں پائی جانے والی خامیوں میں سب سے زیادہ قابل توجہ عنصر بدعنوانی اور قومی خزانے پر بوجھ کا ہے۔دوسری طرف اقتصادی ماہرین اس وقت بھی متفکر ہیں،وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گزشتہ ایک ماہ کے دوران دیے گئے بیانات اور اقدامات کی روشنی میں عالمی سطح پر نئی کساد بازاری دیکھ رہے ہیں،جس کا زیادہ اثر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں پر پڑسکتا ہے۔برآمدی شعبہ پہلے ہی ماضی کی ہر حکومت کیلئے چیلنج بنا رہا ہے،معاشی اصلاحات پروگرام میں اس کیلئے ترجیحی اقدامات اٹھانےکی ضرورت ہے،جن میں ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات،توانائی کی قیمتوں میں کمی،تجارتی توازن ،خصوصاً بیرونی قرضوں سے نجات شامل ہیں۔

تازہ ترین