• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے آس پاس سب ’’نارمل‘‘ بچوں کی طرح ہم بھی کرکٹ کھیلا کرتے تھے، جون جولائی کی تپتی دوپہروں میں، دسمبر کی منجمد شاموں میں، اسکول میں، گلی محلے میں، ویہڑے میں، جہاں دائو لگ جاتاہم شروع ہو جاتے، ٹیپ بال ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور گلی کی کرکٹ بھی سرخ گیند سے کھیلی جاتی تھی، پیڈز، گلوز کی عدم موجودگی میں چوٹ لگنا معمول کی بات سمجھی جاتی تھی، انگلی پر گیند لگی تو ناخن نیلا ہو گیا، گھٹنے پر لگی تو کچھ دن لنگڑاتے رہے، اور پھر چل سو چل۔ سادہ لفظوں میں کرکٹ ہمارا جنون تھا۔

کھیلیں سنٹرل ماڈل اسکول لوئر مال لاہور کے کلچر کا حصہ تھیں، وقار احمد اور وسیم حسن راجہ کا نام اسکول کی کرکٹ کی تاریخ میں بار بار لیا جاتا تھا، مگر کرکٹ سے ہمارا تعلق اس وقت گہرا ہوا جب والد صاحبؒ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں پروفیسر ہوئے اور ہم سٹاف کالونی میں رہنے لگے۔ یہاں کرکٹ کی عالی شان گرائونڈ ہماری پہنچ میں تھی، میچ کیلئے یونیورسٹی کے سپورٹس ڈیپارٹمنٹ سے سارا پروفیشنل سامان پروفیسروں کے بچوں کو آسانی سے مل جاتا تھا، یہیں ہمارا ’’حفاظتی گارڈ‘‘ سے پہلا تعارف ہوا تھا، گرے نکلز کا بیٹ پہلی دفعہ ہاتھ میں پکڑ کر دیکھا تھا، اورپہلی بار وکٹ پر چھڑکائو کیا اور رولر پھیرا تھا۔ 1975 کے پہلے ون ڈے ورلڈ کپ کا ایک میچ ہمارے لیے تاریخی ٹھہرا۔ میچ تھا پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان، پاکستان نے ساٹھ اوور میں 266کیا، ویسٹ انڈیز کے لگ بھگ 200رنز پر نو آئوٹ ہو گئے، ہم جیت کے دہانے پر کھڑے تھے، مگر ڈیرک مرے اور اینڈی رابرٹ کی پارٹنر شپ توڑی نہ جا سکی اور آخری اوور میں ویسٹ انڈیز میچ جیت گیا۔ اس میچ کو ہم نے ’تاریخی‘ اس لیے قرار دیا کہ کسی میچ کے نتیجے سے شدید دل گرفتہ ہونے کا یہ ہمارا پہلا تجربہ تھا۔

1976میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں ماجد خان کی لنچ سے پہلے سنچری ہم نے پی ٹی وی پر براہِ راست دیکھی تھی، جاوید میاں داد کا پہلا ٹیسٹ بھی ہم نے براہِ راست دیکھا تھا اور 1977میں انگلینڈ کے خلاف بائو جی (عبدالقادر) کا ڈیبیو دیکھنے تو ہم بہ نفسِ نفیس قذافی سٹیڈیم میں موجود تھے۔ جب کہ1978میں جب بھارت کی ٹیم بہت برسوں بعد پاکستان آئی اور لاہور ٹیسٹ کے آخری سیشن میں جب پاکستان جیت کی طرف بڑھ رہا تھا اور بشن سنگھ بیدی لیگ اسٹمپ سے باہر منفی گیند بازی کر رہے تھے تو قذافی سٹیڈیم میں غضب ناک نعرے لگوانے والوں میں ہم بھی شامل تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں کرکٹرز کے ایک ٹولے سے بہت دوستی رہی، ان میں سے اکثر کرکٹ کی بنیاد پر کالج میں داخل ہوئے تھے، تقریباً سارے ہی فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے تھے جن میں منصور رانا، فرخ رضا، مصطفیٰ ملک، عاطف رئوف اور طاہر شاہ شامل تھے۔ سلیم ملک بہ ظاہر ہم سے دو سال جونیئر تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ کئی سال سے ایف اے میں ڈٹے ہوئے تھے۔ ٹیسٹ کرکٹر عامر ملک بھی کالج میں ہم سے تین سال جونیئر تھے، طاہر شاہ مرحوم بتایا کرتے تھے کہ عامر ملک نے بارہ سال پنکھوں کے مکینک کا کام کیا ہے اور دراصل وہ کافی ’پرانا‘ ہے۔ کالج کرکٹ ٹیم کی بے بی گرائونڈ نیٹ پریکٹس میں ہم بھی اکثر شامل ہوا کرتے تھے، میرٹ پر ٹیم میں ہماری جگہ نہیں بنتی تھی مگر کبھی کبھی دوستوں کی مہربانی سے میچ بھی مل جایا کرتا تھا۔ مختصراً عرض یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ کرکٹروں کی سنگت میں ہمیں کھیل کا فہم ملا، فرسٹ ہینڈ تجربات ہوئے، جب سر کے پاس سے تیز بائونسر گزرتا ہے تو کان میں کتنی دیر بھنبھناہٹ سی رہتی ہے، اگر حفاظتی گارڈ پر گیند لگ جائے تو کائنات کا درد کیسے مرتکز ہو جاتا ہے، آپ کے خلاف ایل بی ڈبیو کی اپیل اور ایمپائر کے فیصلے کے درمیان کتنی صدیوں کا فاصلہ محسوس ہوتا ہے۔ یہ بیش قیمت معلومات تھیں کیوں کہ اس زمانے میں کرکٹ بہت کم ہوتی تھی، ٹی وی پر سال میں ایک دو ٹیسٹ سیریز دکھائی جاتی تھیں، اور کمنٹیٹرز کا بنیادی وصف انگریزی زبان میں مہارت ہوا کرتی تھی نہ کہ کرکٹ کا شعور۔ اب معاملہ مختلف ہے، کرکٹ بہت زیادہ ہوتی ہے، کرکٹرز کمنٹری کرتے ہیں، ہائی سپیڈ کیمرے اور درجنوں کیمرے، اور عالی شان کوریج جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام ناظر کی کھیل کی سمجھ بھی بہت بہتر ہوئی ہے۔بتا یہ رہا ہوں کہ زندگی بھر کرکٹ دیکھنا ہمارا شوق رہا، کرکٹ کے کھیل سے ہمیں محبت رہی، چوکے چھکے والی کرکٹ تو بہت بعد کی بات ہے، ہماری زندگی کے کئی یادگار میچ ایسے ہیں جو بے نتیجہ ختم ہوئے، بائولرز کے کئی بہترین اسپیل ایسے یاد ہیں جن میں کوئی وکٹ نہ گری، بیٹسمین کی کئی ایسی اننگز حافظے میں روشن ہیں جن میں کوئی چوکا شامل نہیں تھا۔

اب لمحہء رواں میں آ جائیں، پاکستان میں چیمپینز ٹرافی ہو رہی ہے، پاکستان پہلے رائونڈ میں ٹورنامنٹ سے باہر ہو چکا ہے، یعنی ہم تو فارغ ہوئے شتابی سے، دل چسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کچھ برسوں سے زوال آمادہ ہے،اور ٹیم سے اس ٹورنامنٹ میں کسی پرفارمنس کی توقع بھی نہیں تھی، پھر بھی شائقین ٹیم سے شدید ناراض ہیں، انہیں شکایت ہے کہ ٹیم کھیل کر نہیں ہاری، ’’نابالغوں‘‘ کی طرح ہاری ہے۔ہم کیوں ہارے، تشخیص جاری ہے، کچھ ماہرین کا خیال ہے ٹیم سلیکشن غلط تھی، کچھ دوست کھلاڑیوں کو نفسیاتی طور پر کم زور بتا رہے ہیں۔ویسے ہمارا خیال ہے کہ ملک میں کرکٹ کے زوال کی مِن و عَن وہی وجوہات ہیں جو ہاکی کے زوال کی ہیں، جو اسکواش کے زوال کی ہیں۔ زوال ہمہ گیر ہوا کرتا ہے۔ بے ترتیبی ہمارا قومی وصف ہے، ٹریفک سے کرکٹ تک ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے، ہماری اجتماعی زندگی کا ہر گوشہ غیر منظم اور غیر مرتب ہے، کرکٹ کیسے بچ سکتی تھی؟ ’’دلِ مرحوم کو خدا بخشے....ایک ہی غم گُسار تھا نہ رہا۔‘‘

تازہ ترین