• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ کیا واقعی یہ وہی کراچی ہے جسے میں نے بچپن میں چمکتا دمکتا دیکھا تھا؟ وہی شہر جہاں سڑکیں دھلا کرتی تھیں، جہاں ہوا میں سمندر کی تازگی محسوس ہوتی تھی، جہاں راتیں جاگتی تھیں مگر لوگ سکون میں رہتے تھے۔ آج، وہی شہر، جسے روشنیوں کا شہرکہا جاتا تھا، ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ سڑکیں شروع سے آخر تک ٹوٹی ہوئی، ہر گلی میں کھدائی، کہیں گیس کی لائن کا کام نامکمل، کہیں پانی کی پائپ لائن آدھی کھدی ہوئی چھوڑ دی گئی، کہیں گٹر ابل رہے ہیں، اور کہیں سڑکوں پر پانی کھڑا ہے جیسے کوئی جوہڑ ہو۔ یہ کراچی کے کسی ایک علاقے کی کہانی نہیں، پورا شہر ایک اجڑے خواب کی مانند نظر آتا ہے، ایک ایسا خواب جو حکمرانوں کی بے حسی اور کرپشن کے ہاتھوں چکنا چور ہو چکا ہے۔

حیدری! ہاں، وہی نارتھ ناظم آباد کا حیدری جو کبھی کراچی کی شان ہوا کرتا تھا، جو اپنی مارکٹوں، رونقوں اور خوبصورتی کیلئے مشہور تھا۔ مگر آج؟ آج وہی علاقہ کسی کچرا کنڈی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، ابلتے گٹر، کیچڑ میں دھنسی گاڑیاں اور سب سے بڑھ کر وہ بے بسی جو ہر چہرے پر لکھی نظر آتی ہے۔

یہ سب کیسے ہوا؟ کیا یہ سب خودبخود ہو گیا؟ نہیں! یہ سب کسی حادثے کا نتیجہ نہیں، یہ ایک منظم تباہی ہے۔ ایک ایسی تباہی جو منصوبہ بندی سے بھی کی جاتی تو شاید اتنی خوفناک نہ ہوتی جتنی آج حقیقت میں ہے۔۔

پانی جو ہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے، کراچی کے اکثر علاقوں سے ناپید ہوچکا ہے۔ یہاں پانی بیشتر علاقوں میں نلکوں سے نہیں آتا، خریدنا پڑتا ہے۔ جو جتنا امیر ہے، وہ اتنا زیادہ پانی خرید سکتا ہے، اور جو غریب ہے، وہ پیاس سے بلک بلک کر مر جائے۔ یہ کون سا نظام ہے؟ یہ کون سی حکومت ہے جو پانی جیسے بنیادی حق کو کاروبار میں بدل چکی ہے؟ ٹینکر مافیا نے اس شہر کے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے، اور حکومت ان کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ کیا کراچی کے لوگوں کی قسمت میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ وہ ہر چیز کے لیے قیمت ادا کریں، حتیٰ کہ پانی کے لیے بھی؟

اور سڑکیں؟ انہیں سڑک کہنا بھی زیادتی ہو گی۔ سڑکیں تو ہوتی ہیں چلنے کے لیے، مگر کراچی کی سڑکیں، کہیں گڑھے ہیں، کہیں پورے پورے راستے تباہ حال ہیں، کہیں ایک سڑک کھود کر چھوڑ دی گئی، اور کہیں اتنی تنگ ہو چکی ہے کہ گاڑی گزارنا مشکل ہو گیا ہے۔ میں نے افریقہ کے سب سے غریب ممالک جیسے یوگنڈا، تنزانیہ، کینیا، روانڈا تک کا سفر کیا ہے، مگر وہاں بھی ایسی تباہ حالی نہیں دیکھی جیسی آج کراچی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔یہ شہر ہر روز مزید بدحال ہوتا جا رہا ہے۔ مگر سب سے خوفناک چیز جو اس شہر کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے، وہ ہے نشہ۔ کراچی میں نشہ اتنا عام ہو چکا ہے کہ بچے تک اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ بچے جو کل اس ملک کا مستقبل بننے والے تھے، وہ آج نشے میں دھت سڑکوں پر پڑے ہیں۔ وہ اسکول، وہ کالجز، وہ یونیورسٹیاں جہاں تعلیم دی جانی چاہیے تھی، وہاں نشہ عام ہو چکا ہے۔ کون یہ نشہ بیچ رہا ہے؟ کون اس زہر کو شہر میں پھیلا رہا ہے؟کیا ان سب چیزوں کو روکنے والا کوئی نہیں؟ کیا وہ حکومتی ادارے جو کروڑوں، اربوں کا بجٹ لیتے ہیں، بس تنخواہیں بٹورنے کیلئے بنائے گئے ہیں؟

مصطفیٰ قتل کیس کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، اور بدقسمتی سے آخری بھی نہیں ہو گا۔ نشہ انسان کو بے حس کر دیتا ہے، اس کی عقل چھین لیتا ہے، اور پھر وہ ہر چیز کو کھیل سمجھنے لگتا ہے، چاہے وہ قتل ہو یا خود کشی۔ کراچی میں نہ جانے کتنے مصطفیٰ نشے کی لت میں پڑ کر اپنی زندگیاں برباد کر چکے ہیں، اور نجانے کتنے مزید اس دلدل میں گرنے والے ہیں۔ اس جرم کو روکنےکیلئے کیا کیا گیا؟ کچھ بھی نہیں!۔کراچی کے نام پر ووٹ لینے والی جماعتیں کہاں ہیں؟ وہ وعدے کہاں گئے جو الیکشن سے پہلے کیے گئے تھے؟ اقتدار کے ایوانوں میں عیش و عشرت کرنے والے سیاستدان اس شہر کی سڑکوں پر کیوں نہیں نکلتے؟ وہ ان گلیوں میں کیوں نہیں آتے جہاں بچے نشے میں دھت ہو کر اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں؟ وہ ان گلی محلوں میں کیوں نہیں جاتے جہاں لوگ پانی کے بغیر سسک رہے ہیں؟ وہ ان بازاروں میں کیوں نہیں آتے جہاں کاروبار ٹھپ ہو چکا ہے؟ کیونکہ انہیں اس شہر سے کوئی غرض نہیں!

یہ شہر برباد ہو رہا ہے، مگر کوئی پرسان حال نہیں۔ مگر کیا کراچی کے لوگ بھی اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ بس دیکھتے رہیں گے؟ اس موقع پر مہاجر قومی موومنٹ کے رہنما آفاق احمد کراچی کے مسئلے پر آواز بلند کرنے والے واحد رہنما نظر آئے جسکے نتیجے میں انھیں گرفتار بھی ہونا پڑا لیکن ایک طویل عرصے بعد کراچی کے مسائل پر پہلی آواز سنی جو قابل تحسین ہے لیکن کیا کراچی کے عوام اپنی بربادی پر خاموش رہیں گے؟ یا وہ اٹھیں گے، سوال کریں گے، اور اپنا حق مانگیں گے؟

تازہ ترین