(گزشتہ سے پیوستہ)
آپ یہ دیکھیں کہ ایک توپ کے گولے کی آواز پورے لاہور کے لوگوں تک پہنچ جاتی تھی۔کتنا پرسکون اور صاف ستھرا شہر تھانہ کوئی آلودگی، نہ کوئی شور، نہ کوئی ٹریفک، سوچیں اسی لاہور کی مال روڈ پر ونسٹن چرچل سابق وزیر اعظم برطانیہ نے گھڑ سواری کی ہے اور گھڑ سواری بھی انہوں نے گورنمنٹ ہائوس (گورنر ہائوس) سے چیف کالج (ایچیسن کالج اور نہر کی طرف کی ہے) چرچل لاہور کے ڈی کرنس کے سامنے واقع ایک عمارت میں بھی آئے تھے وہ عمارت آج بھی ہے ۔سابق وزیر اعظم برطانیہ ونسٹن چرچل 1907ء میں لاہور آئے تھےاور انہوں نے لاہور کی ایئر بیس دیکھی تھی۔ وہ تاریخی توپ جس سے گولہ داغا جاتا تھا اب پتہ نہیں کہاں ہےہم کسی بھی تاریخی حامل کی چیز کو محفوظ کرنا نہیں جانتے اور پھر ہم جس انداز میں تاریخی چیزوں کو محفوظ کر رہے ہیں وہ 1975ء کے آثار قدیمہ ایکٹ کے بالکل خلاف ہے۔ والڈ سٹی والے اندرون لاہور کے قدیم مکانوں کو نیلے،پیلے،لال ،گلابی اور سبز رنگ کرکے یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے شہر کا تعمیراتی، تہذیبی اور ثقافتی حسن بحال کر دیا ہے بالکل غلط کسی بھی تاریخی شہر کو محفوظ بنانے کےلئے درج ذیل لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے کنسورئیشن کے ماہرین، آرکیٹیکٹ ،سول انجینئر، ہسٹارین، ریسرچ کرنے والےاور پرانی عمارات کو تعمیر کرنے والے مستری /راج یا ماہر پھر جاکر کسی تاریخی عمارت کو آپ اس کے اصل تعمیراتی حسن اور قدیم تاریخی لوازمات کے ساتھ محفوظ کر پاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی کہ کسی بھی بیورو کریٹ کو ہرفن مولا جان کر اس کے سپرد ہر چیز کر دیتے ہیں شہر کے چند ایک مکانات اور ایک دو گلیاں رنگ وروغن کرنے سے یہ تاریخی شہر اور اس کی قدیم عمارات کا حسن سامنے نہیں آ رہا خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔پرانی انار کلی اور اس کے ارد گرد کا سارا علاقہ چھائونی تھا اور یہاں پر کئی بیرکیں تھیں حتیٰ کہ گورنمنٹ کالج لاہور (اب یونیورسٹی) بھی ایک زمانے میں ایک فوجی بیرک میں رہا بہت ہی کم لاہوریئے بلکہ راوین کو بھی نہیں پتہ کہ گورنمنٹ کالج اصل میں کس تاریخی حویلی سے شروع ہوا تھاشاید ہی گورنمنٹ کالج لاہور کے کسی پرنسپل/ وائس چانسلر کو پتہ ہو کہ گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز کس حویلی سے ہوا تھا صرف پروفیسر ڈاکٹر نذیر احمد کو اسکا علم تھا کہ ان کا تعلق اندرون لاہور سے تھا۔ ڈاکٹر نذیر احمد کی خاطر گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علموں نے پہلی مرتبہ گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالا باغ امیر محمد خاں کے حکم کے خلاف ہڑتال کر دی تھی اور ڈاکٹر نذیر احمد کا تبادلہ گورنر کو منسوخ کرنا پڑا تھا۔ یہ بڑا تاریخی واقعہ ہے اس کی تفصیلات پھر کبھی بیان کریں گے۔ یہ بھی تاریخ میںہےگورنمنٹ کالج لاہور کے اسٹوڈنٹس نے کالج میں پہلی مرتبہ ہڑتال کی اور سڑکوں پر آئے تھے۔یہ بات درست ہے کہ تحریک پاکستان میں گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبا نے کوئی حصہ نہیں لیا تھا۔
گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز ٹیکسالی دروازہ ہیرا منڈی تحصیل بازار اور حضرت سید مٹھا کے بازار کے نزدیک ایک گلی کے اندر واقع دربار دھیان سنگھ کی حویلی سے ہوا تھا لاہوریوں کی اکثریت اور بعض کتابوں میں جس حویلی کو دھیان سنگھ کی حویلی چونا منڈی یا آصف جاہ کی حویلی چونا منڈی کہتے ہیں اس سے گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز بالکل نہیں ہوا تھا جو حویلی ہم اپنے بچپن سے دیکھتے آ رہے ہیں وہ دربار دھیان سنگھ کی حویلی حضرت سید مٹھا بازار کے نزدیک ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ ہمارا تعلق بھاٹی گیٹ بازار حکیماں سے ہے یہ علاقہ شریف لوگوں کی بائونڈی تھی تحصیل بازار کے نکڑ سے اور اس سے آگے ہیرا منڈی کا علاقہ شروع ہو جاتا ہےبدنام زمانہ ٹبی گلی یہیں پر ہے اسی وجہ سے یہ سارے علاقے ایک مدت سے ہماری نظروں میں ہیں۔ ہم نے ان علاقوں میں سائیکل ،موٹر سائیکل اور موٹر کار بھی بہت چلائی ہے ویسے تو آج بھی ہم یہاں موٹر کار پر اکثر آتےجاتے ہیں۔
حویلی راجہ دھیان سنگھ جو شاہی محلہ /ہیرا منڈی کے نزدیک ہے وہیں سے اورینٹل کالج، گورنمنٹ کالج اور پنجاب یونیورسٹی کا آغاز ہوا تھا کسی زمانے میں یہ حویلی بڑی خوبصورت تھی اور دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی یہ حویلی کسی بھی طور پر سکھ تعمیرات کی نشانی نہیں بلکہ یہ کسی مغل امیر/ حاکم کی حویلی تھی اور وہ امیر/ حاکم اپنی اس حویلی میں اپنا دربار بھی لگایا کرتا تھا اور یہیں پر اس کی رہائش تھی یہ حویلی چونے، مٹی کے گارے اور چھوٹی اینٹ کی انتہائی خوبصورت حویلی ہے ہم نے اس حویلی کو کئی مرتبہ دیکھا ہے اس ہفتے ہم گورنمنٹ سٹی مسلم لیگ ہائی اسکول کے پرنسپل قمر بختیار سے درخواست کرکے اس حویلی کے تہہ خانے میں جو کہ ایک بڑا ہال ہے اور کم از کم دوکنال کے رقبے پر محیط ہے، میں گئے انتہائی خوفناک منظر تھا اندھیرا ایسا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دے، یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس ہال میں کبھی گورنمنٹ کالج لاہور، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی، دھیان سنگھ ہائی اسکول اور پھر گورنمنٹ سٹی مسلم لیگ ہائی اسکول کی کلاسیں ہوتی رہی ہیں۔ سٹی مسلم لیگ کے پرائمری سیکشن کی کلاسیں تو 1982ء تک جاری رہیں جب تک اس عمارت کو خطرناک قرار نہیں دیا گیا۔ اس حویلی میں پرائمری کلاس کی کلاسیں ہوتی رہیں افسوس کہ اگر اس وقت کی حکومت اس عمارت کی مناسب مرمت کرا دیتی تو آج بھی یہاں کلاسیں ہو رہی ہوتیں۔ پوری حویلی میں کہیں بھی سریا، سیمنٹ، ریت کا استعمال نہیں ہوا۔گورنمنٹ کالج لاہور یکم جنوری 1864ء سے 1871ء تک اس حویلی میں رہا دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس تاریخی عمارت پر یہ لکھ سکیں کہ یہاں سے گورنمنٹ کالج، اورینٹل کالج اور پنجاب یونیورسٹی کا آغاز ہوا تھا۔اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں تعلیمی اداروں کی انتظامیہ نے بھی کبھی بھول کر اس تاریخی عمارت کا ذکر نہیں کیا ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ گورنمنٹ کالج کا آغاز اصل میں جس حویلی دھیان سنگھ سے ہوا تھا وہ ٹیکسالی دروازے میں حضرت سید مٹھا کے مزارمبارک کے بالکل نزدیک ہے اور جس آصف جاہ حویلی کا ذکر کیا جاتا ہے جہاں پر گورنمنٹ فاطمہ جناح گرلز کالج چونا منڈی ہے وہ حویلی اور ہے ہمارے لوگ ریسرچ نہیں کرتے اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرلیتے ہیں۔ (جاری ہے)