• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8فروری2024ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونیوالی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپوزیشن کے ایجی ٹیشن، مظاہروں اور ہنگامہ آرائی کے باوجود چل رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایجی ٹیشن کے نتیجے میں وفاقی حکومت گری اور نہ ہی پنجاب میں مریم نواز کی حکومت کیلئے کوئی مشکل صورت حال پیدا ہوئی ۔ جہاں تک کے پی میں علی امین گنڈا پور کی حکومت کا تعلق ہے اس نےایک سال کے دوران دو تین دفعہ اسلام آباد پر لاحاصل ’’لشکر کشی‘ ‘کی ہے۔ دنیا بھر میں جمہوری حکومتیں ہمیشہ اپنے ایک سال کی کارکردگی عوام کے سامنے لاتی ہیں اس کیلئے میڈیا میں اشتہارات اور پروگراموں کا سہارا لیتی ہیں۔ حکومتیں اپنی کارکردگی کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں جو حکومت کارکردگی کے میدان میں پیچھے رہ جائے وہ تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔ ملک میں سیاسی محاذ آرائی اور کشیدگی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ کوئی جماعت دوسری جماعت کی کارکردگی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومتوں کو اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے اشتہارات کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اگر کسی حکومت کی کارکردگی صفر ہو تو وہ کیونکر اعلیٰ کارکردگی کی حامل حکومت کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ طویل عرصہ کے بعد پنجاب میں کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے مخالفین بھی مریم نواز کی اعلیٰ کارکردگی کے معترف نظر آتے ہیں۔ وہ صحافی اور اینکر پرسن جن کا اوڑھنا بچھونا ہی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی کارکردگی میں کیڑے نکالنا ہے وہ بھی پنجاب میں مریم نواز کی حکومت کی کارکردگی کو تسلیم کرنے مجبور ہو گئے ہیں۔ مریم نواز نے ایک سال کی مدت میں پنجاب میں جو کچھ کر دکھایا ہے ان کے چچا شہباز شریف، جن کی اعلیٰ کارکردگی کے حوالے دئیے جاتے ہیں، بھی اپنی بھتیجی کی کارکردگی پر رشک کرنے لگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت کا دبدبہ رہا اور راتوں رات ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل پر ’’شہباز اسپیڈ‘‘ کی چین تک گونج سنائی دی لیکن مریم نواز اعلیٰ صلاحیتوں کی حامل ٹیم کی مدد سے ہر روز ایک نئے پروگرام اور پروجیکٹ کو متعارف کرا کے دیگر صوبائی حکومتوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئی ہیں ایک سال میں 90پلس عوامی منصوبے صوبے کے عوام کو دئیے ہیں۔ 10اپریل 2022ء کو عمران خان کے اقتدار کاسورج غروب ہونے کے بعد شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت کو معاشی میدان میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے ملک کو ’’ڈیفالٹ‘‘ ہونے سے تو بچا لیا لیکن مہنگائی کے ہاتھوں پاور بیس میں اپنا ’’پولیٹکل کیپٹل‘‘ تباہ کر دیا پنجاب جو کبھی مسلم لیگ (ن) کا ’’پاور بیس‘‘ تھا پی ٹی آئی نے نقب لگا لی لیکن مریم نواز نے جہاں پنجاب میں حکومت کامیابی سےچلاکر اپنی دھاک بٹھا دی ہے وہاں ایک سال کے دوران دن رات محنت کر کے مسلم لیگ (ن) کی شکستہ کشتی کو طوفانی تھپیڑوں سے بھی نکال لائی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھر پور سپورٹ کی وجہ سے مریم نواز کو گڈ گورننس بارے فیصلے کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی انہوں نے خود کو جاتی امرا میں قید کرنے کی بجائے جہاں پنجاب کے طول و عرض میں مسلم لیگ (ن) کا پرچم سر بلند کر رکھاہے اور نواز شریف کے شیدائیوں کی قوت کو مجتمع کیا وہاں وہ سیاسی مخالفین سے دو دو ہاتھ کر رہی ہیں اور عوام کو ڈیلور بھی کر رہی ہیں۔ پنجاب میں ایک بار پھر عوام میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت بحال کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہیں جس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہے انہوں نے ہر روز 12سے 16گھنٹے کام کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ان کی ٹیم کے دو سرخیل سینیٹر پرویز رشید اور سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگ زیب حکومت کی کامیابی کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں اگرچہ اب سینیٹر پرویز رشید کو مریم نواز کے استاد کا درجہ مل گیا ہے لیکن مریم نواز سیاست میں قدم رکھنے سے قبل سینئر سیاست دان چوہدری نثار علی خان کو اپنا آئیڈیل کہا کرتی تھیں چونکہ اب وہ مسلم لیگ نون سے کناعہ کش ہو چکے ہیں اس لئے اب شاید وہ ان کے آئیڈیل نہیں رہے کیونکہ 6سال انہوں نے مریم نواز کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کر کے اپنے لئے ’’سیاسی تنہائی‘‘ کا گوشہ چن لیا ہے اور ملکی سیاست میں کوئی موثر کردار ادا کرنے کی بجائے ’’گوشہ نشین‘‘ ہو گئے ہیں۔ اب پنجاب میں مریم اورنگ زیب اور سینیٹر پرویز رشید کا طوطی بولتا ہے، مریم نواز تک ان دو شخصیات کی ہی رسائی ہے پچھلے ایک سال تک مریم نواز نے پنجاب اسمبلی کے ارکان سے اپنے آپ کو کچھ فاصلے پر رکھا اور پنجاب میں گڈگورننس کے لئے انتظامی عہدوں اور پولیس میں تبادلوں میں کوئی سفارش قبول کی اور نہ ہی کسی سیاسی دبائو کو قبول کیا ان کی کرپشن بارے زیرو ٹالرنس کی پالیسی کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی حمایت کی قیمت صدر، پنجاب و کے پی کے گورنر، چیئرمین سینیٹ و ڈپٹی اسپیکر اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت اہم عہدے حاصل کرنے کے باوجود پنجاب کے ان اضلاع میں اپنی مرضی کے انتظامی افسران اور پولیس افسران لگوانا چاہتی ہے جس کے باعث پیپلز پارٹی کی طرف سے کبھی کبھی مسلم لیگ (ن) کو تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ بعض اوقات پنجاب حکومت کی کارکردگی پر رشک کرنے کی بجائے سندھ حکومت کے ترجمان طنز وتنقید کے تیر چلاتے رہتے ہیں ابھی وفاق اور صوبوں میں حکومتوں کو قائم ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو آئندہ وزیر اعظم بنانے کی باتیں کر نے لگی ہے۔ سر دست چاروں صوبائی حکومتوں کا تقابل کیا جائے تو بلا شک و شبہ مریم نواز حکومت پہلی پوزیشن پر آتی ہے دیگر صوبائی حکومتوں کو مریم نواز کی اعلیٰ کارکردگی پر حسد کرنے کی بجائے ایک دوسرےکی کارکردگی اور تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین