• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس دوران میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، دو متضاد تصورات باہم متصل دکھائی دیتے ہیں: لمحہ موجود میں تاریکی کی شدت کا احساس، اور دوسری طرف بھرپور تاب و تواں کیساتھ امید کے چٹکتے غنچے۔ یہ رجائیت اس حقیقت سے جنم لیتی ہے کہ دنیا میں ثبات صرف تغیر کوہی حاصل ہے ۔ تمام مظاہر وقت کی گزرتی ساعتوں کی نذر ہوجاتے ہیں ۔کچھ عجب نہیں کہ آج اداسی کی گہری فضا میں کل بہار کی کلیاں مہکنے لگیں۔ لیکن پھر ہم اس گھمبیر، ہولناک اندھیرے سے نکل کر روشنی کی طرف کیسے جاسکتے ہیں جہاں مستقبل کی راہوں پر تبدیلی کا وعدہ کیا گیا ہے ؟ گھناؤنی تاریکی سے امیدوں، امنگوں اور یقین کی دنیا کی طرف سفر کس طرح ممکن ہے؟وہ لوگ جنھیں ہمیشہ طالع آزماؤں کی لوٹ مار کا سامنا رہا ہے، وہ بات کو کیسے یقینی بنائیں کہ قابل فراموش ماضی اور سفاک وقت مستقبل میں دوبارہ نہیں لوٹ آئے گا ؟گڑھوں اور کھائیوں سے اٹے اس راستے پر ترقی کا سفر کسی مہیب چیلنج سے کم نہیں ۔

اس قوم کی بدقسمتی یہ رہی کہ جب سے یہ ملک قائم ہوا ہے، اس نے کسی نہ کسی رکاوٹ کا سامنا کیا ہے۔ اسکی ترقی کی صلاحیت کو ان لوگوں نے یرغمال بنائے رکھا جو روایتی طور پر ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں اور جن کے موروثی مفادات تمام تر قانونی حیثیت یا اخلاقیات کے سوال سے بالاتر ہوکر راج کرتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ درپیش مسائل کی ناقابل تسخیر نوعیت کے باوجود زیادہ تر لوگ بہتر وقت کی امید میں ثابت قدم رہے ہیں۔ جسمانی آفات سے لیکر انسانوں کی تخلیق کردہ تبدیلیوں تک، اپنی اچھی قسمت پر لازوال اعتماد نے انھیں نامساعد حالات کی لہروں کے خلاف لڑنے اور اپنا بچاؤ کرنےکا حوصلہ دیا ہے ۔ ایک آزاد ملک کے شہریوں کے طور پر اپنے سفر کے آغاز سے ہی لوگوں نے ہمیشہ منفرد چیلنجوں کا سامنا کیا ہے۔ ابتدا میں اپنے لیڈروں کے انتخاب کے حق سے محروم ہونے سے لے کر تسلسل سے لگائے جانے والے مارشل لاؤں اور قائم کیے جانے والے ہائبرڈ بندوبستوں کا جبر برداشت کیا۔ اسکے باوجود رجائیت کی چنگاری ان کے دل میں فروزاں رہی جس نے ان کا جادہ زیست منور کیے رکھا۔ انتہائی امید اور ناامیدی کے درمیان قلابازیاں  کھاتے ہوئے انھوں نے کسی نہ کسی طرح سمجھ داری کا دامن تھام کر توازن اور اعتدال برقرار رکھا ہے ۔ صرف یہ خوبی ہی عوام کے حوصلے اور ثابت قدمی کے ثبوت کے لئے کافی ہے جس نے انہیں 1947ء سے جاری اس سفر کی اذیت کا سامنا کرنے کے قابل بنائے رکھا ہے ۔

جہاں انکی زندگی مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہی، وہیں ان پر غدار اور دیگر ذلت آمیز الزامات لگائے گئے۔ جب بھی انھوں نے ایسا کام کیا جو حکمرانوں کی مرضی اور منشا کے مطابق نہ تھا تو ان پر فوری طور پر ریاست کے مفادات کے خلاف کام کرنے والے دشمن کا لیبل چسپاں کردیا جاتا۔ کچھ بین الاقوامی شہرت یافتہ دانشوروں اور روشن خیال افراد کو حکومتِ وقت، گویا ریاست کے خلاف سازشیں کرنے پر طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ اس وقت ریاست اور حکومت کے درمیان فرق ختم کردیا گیا۔ اس طرح موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں کے خلاف ہونے والے احتجاج کو ملک کے خلاف گھناؤنا فعل تصور کیا جائے گا،جو سخت ترین سزا کا مستحق ہے۔

فیض احمد فیض بھی ایک ایسے ہی دانشور تھے جنھوں نے زندگی بھر حکومتوں کی زیادتیوں کا سامنا کیا۔ اس ذلت آمیز سلوک سے جو تکلیف ہوئی ہوگی وہ ناقابل بیان ہے۔ انھوں نے اپنے دوستوں ،ساتھیوں اور اپنے دکھوں کو بیان کرنے والی شاہکار نظمیں لکھیں۔ ان کی ایک معرکتہ الآرا نظم کے چند اشعار اس طرح ہیں:

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی

یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے

نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا

جنھیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے

ماضی کو تسلسل سے دہرایا گیا ہے، فرق صرف حوالہ جات کے عنوانات کا ہے۔ کل کے غدار آج کے ڈیجیٹل دہشت گرد ہیں۔ اس کا دوٹوک اثر وہی ہے : لوگ ریاستی مشینری کے استعمال کی وجہ سے تمام تر سختی کے باوجود خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔ ریاستی طاقت کا استعمال جس ڈھٹائی سے کیا گیا ہےاس کی پاکستان کی تاریخ میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اگرچہ جبر سے کسی مسئلے کی شدت تھوڑی دیر کے لیے کم کی جا سکتی ہے، لیکن آزادی کے گہرے جذبات سرجھکانے سے انکاری ہیں۔ جب بھی انھیں روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ منہ زور جذبے امڈتے ہوئے طوفانوں کی طرح واپس آجاتے ہیں۔ اس کی درست ترین عکاسی موجودہ دور سے زیادہ شاید ہی کبھی دیکھنے میں آئی ہو۔ ریاستی جبر تلے دبے لوگوں نے نئے جوش اور توانائی کے ساتھ زبردست ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے آزادی کی تلاش میں انسانی جدوجہد کو ایک مختلف سطح پر پہنچا دیا ہے جس کی ماضی میں توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ فیض صاحب پھر فرماتے ہیں:

متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے

کہ خون دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے

زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے

ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے

جیسا کہ میں نے پہلے کہا، ہم اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں دو متضاد تصورات باہم متصل دکھائی دیتے ہیں۔ گزرے وقتوں میں روایت پسند ہمیشہ محدود ماحول میں کام کرتے ہوئے کامیاب ٹھہرتے ۔ لیکن وہ دور اب جا چکا ۔ بیداری کی آنچ بڑھانے اور آگاہی کا نشتر تیز کرنے والے سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ مکمل کنٹرول کا امکان ختم ہو چکا۔ ریاست کی سختیوں کے باوجوداب دنیا کے کونے کونے میں محروم لوگوں کے جذبات اور خواہشات کے اظہار کے راستے دستیاب ہیں۔ یہ وہ نیا میدانِ جنگ ہے جسے اقتدار پر قابض لوگ خود حفاظتی قانون سازی اور عدلیہ کو کنٹرول کرتے ہوئے سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن مقصد حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ریاستی طاقت کے ذریعے معاملات طے کرنے کا دور جا چکا۔ روشنی کو غیر معینہ مدت کے لیے مقید نہیں جا سکتا۔ یہ پردوں میں سے بھی گزر جاتی ہے۔ وقت آنے پر چھوٹی چھوٹی دراڑوں سے اس کی کرنیںپھوٹنے لگیں گی یہاں تک کہ چاروں  طرف روشنی پھیل جائے ۔اس وقت تو تاریکی بھی ایک سراب لگے گی ۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں)

تازہ ترین