انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفود کی پاکستان آمد اور مختلف امور پر بات چیت کا پچھلے ماہ سے جاری سلسلہ جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے مختلف شرائط اور مشوروں پر عملدرآمد کی مشق جاری ہے جس کے حوالے سے فنڈ کی ایم ڈی کرسٹالیناجارجیوا کا یہ اعتراف سامنے آچکا ہے کہ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والے پروگرام بروئے لانے میں جو کوششیں کیں انکے نتیجے میں ملکی معیشت استحکام کے بعد ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ اعتراف انہوں نے متحدہ عرب امارات میں منعقدہ ’’ورلڈ گورنمنٹس سمٹ‘‘ کی سائڈ لائن پر وزیراعظم شہبازشریف سے 12؍فروری کو ہونے والی ملاقات اور ’’ایکس‘‘ پر اپنے بیان میں کیا تھا۔ پیر 3؍مارچ کو پاکستان آنے والا آئی ایم ایف وفد پچھلے مہینے سے آنے والے وفود کے سلسلے میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ 4؍مارچ سے شروع ہونے والے دو ہفتے پر محیط اس دورے کے پہلے مرحلے میں 7ارب ڈالر قرض پروگرام کی شرائط پر بات چیت، عملدرآمد رپورٹ، زرعی آمدنی اور پراپرٹی ٹیکس بریفنگ کی روشنی میں آگے بڑھے گی۔ ایف بی آر کو 604ارب ریونیو شارٹ فال کا سامنا ہے جبکہ 250ارب روپے اضافی محصولات کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس مقصد کیلئے لاکھوں دکاندار، ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے پر کام جاری ہے۔ آئی ایم ایف کو آگاہ کیا گیا ہے کہ کل موصول شدہ 6ملین ٹیکس گوشواروں میں سے تین سے 5فیصد کی آڈٹ جانچ کا عمل مصنوعی ذہانت کی مدد سے کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی پاکستان میں پہلے سے موجود ٹیم کے پاکستان بزنس کونسل کے دورے میں تاجروں کی طرف سے بجلی کے نرخوں میں کمی کی جو ضرورت اجاگر کی گئی، اسے وزیراعظم شہبازشریف کی ایم ڈی کرسٹالیناجارجیوا سے دبئی میں ہونے والی ملاقات کی تفصیلات سے ملاکر دیکھا جائے تو یہ امکانات نمایاں ہوتے ہیں کہ IMF بجلی نرخوں میں کمی کے پلان پر مثبت جواب دے گا۔