خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں خود کش حملوں،بم دھماکوں،اور سنگین بدامنی کے واقعات طویل عرصے سے پیش آ رہے ہیں۔تازہ واقعہ میں بلوچستان کے ضلع قلات میں قومی شاہراہ پر خاتون بمبار کے سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملے میں ایک اہلکار شہید اور 4زخمی ہوئے ہیں جبکہ ایک گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔وزارت داخلہ کے مطابق جیسے ہی سکیورٹی فورسز کا قافلہ مغلزئی پہنچا تو خاتون بمبار نے ان کی گاڑی کے قریب جا کر خود کو اڑا لیا جس کی تاحال شناخت نہیں ہوسکی۔صوبے میں 2022سے خواتین کو بطور خود کش بمبار استعمال کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون شاری بلوچ نے اپریل 2022میں خود کش حملے میں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا تھا۔اس کے بعد سمیعہ بلوچ نے جون 2023میں سکیورٹی فورسز کی گاڑیوں پر حملہ کیا تھا۔گزشتہ سال لسبیلہ میں سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر ایک خاتون کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا۔گزشتہ ماہ کے اوائل میں ضلع کے علاقہ منگیچر میں عسکریت پسندوں کے حملے میں 18سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے۔جوابی کارروائی میں 12دہشتگردوں کو واصل جہنم کیا گیا تھا۔ ایک اور تازہ واقعہ میں ضلع گوادر میں نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کر کے متعدد گاڑیوں اور ایک پولیس چوکی کو نقصان پہنچایا ہے۔چند روز قبل ضلع خضدار میں گھات لگائے افراد کی فائرنگ سے جے یو آئی بلوچستان کے دو رہنما جاں بحق ہوگئے تھے۔ہائی ویز کی ناکہ بندی،چیک پوسٹوں کو نقصان پہنچانے کے واقعات اور خود کش حملے اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے ابھی مزید بہت کچھ کرنا باقی ہے۔دہشتگردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی آج پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔دہشتگردوں کے اندرونی سہولت کاروں،ان کے فنانسرز اور ہینڈلز کےخلاف نتیجہ خیز کارروائی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے۔