سیاستدان کی کامیابی اس میں ہوتی ہے کہ وہ اپنا دائرہ عمل مسلمہ سیاسی و جمہوری اقدار میں رکھے۔ اور جب مسلمہ جمہوری اقدار سے ہٹ کر کوئی بھی اقدام محسوس ہوتا ہے تو وہ اس سیاسی حکومت یا سیاسی قائد کے مخالفین کو ممکن ہے کہ وقتی طور پر کمزور کر رہا ہو مگر اس کی وجہ سے حکومت بذات خود بھی اپنی جگہ چھوڑ رہی ہوتی ہے۔ یہ مستقل بنیادوں پر خبریں گردش کر رہی ہیںکہ کچھ صحافی حضرات پر قدغنیں عائد کی جا رہی ہیں اور سیاسی عمل کے حصہ داروں کی کانفرنس یا سیاسی بیٹھک میں بھی رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں۔ اگر ایسا کچھ ہو رہا ہے تو اس سے حکومت کی اپنی نیک نامی پر ہی اثر پڑے گا اور اس کے کئے گئے متعدد مثبت اقدامات پر سے عوام کی توجہ ہٹانے کی غرض سے ایک بیانیہ ہاتھ آ جائے گا اور جس بیانیہ کا اس وقت پروپیگنڈا بھی ہو رہا ہے۔
یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ سوچنے پر پابندیاں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں، سوچ بہرحال پنپتی رہتی ہے۔ مسٹر ہکے نے 1780میں بنگال گزٹ کے نام سے اخبار جاری کیا۔ یہ ایشیا کا پہلا پرنٹڈ اخبار تھا اور اس کے حوالے سے یہ بات طے ہو گئی تھی کہ یہ اخبار انڈیا میں آزادی اظہار کا ایک بہت بڑا علمبردار ہے، جنگ اور نو آبادیات قائم کرنے کی پالیسی کا سخت نکتہ چین ہے اور یہ معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس اخبار کو 1782 میں ہی بند کرنا پر گیا اور اس کے ایڈیٹر مسٹر ہکے کو جبری طور پر انگلستان واپس بھیج دیا گیا۔ اس نوعیت کے واقعات ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں ایک تواتر سے پیش آ رہے تھے۔ مسٹر بکنگھم کلکتہ جرنل کے ایڈیٹر تھے۔ انہوں نے یہ جرنل 1818میں جاری کیا تھا۔ انگریز افسران شروع میں اس جرنل میں شائع شدہ مضامین کے اعلیٰ ترین علمی معیار کے سبب اس کے بڑے مداح بن گئے تھے۔ مسٹر بکنگھم صحافت کے انگریزی اصول کے قائل تھے مگر مشکل یہ تھی کہ یہ انگریزی اصول انگلستان میں تو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے مگر ایسٹ انڈیا کمپنی میں انگریزی نو آبادیات کے حوالے سے تصور یہ مضبوط تھا کہ ان پر یہ اصول لاگو کر کے ان کے دماغ خراب نہیں کئے جا سکتے۔
مسٹر بکنگھم مگر معاملات کو اپنی عینک سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے سرکاری امور، ایسٹ انڈیا کمپنی کے افسران کی زندگی پر سخت تنقید کرنا شروع کر دی، حکومت کے غیر محدود اختیارات کے سخت ترین مخالف بن گئے، ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے اتنا درد سر بن گئے کہ ان کو بھی جبری طور پر انگلستان روانہ کر دیا گیا۔ اس وقت یہ ایک بہت بڑی سزا تصور کی جاتی تھی۔ مسٹر بکنگھم اپنے مؤقف میں اتنا سنجیدہ تھا کہ اس نے انگلستان پہنچنے کے بعد اپنے ساتھ ہندوستان میں ہونے والے سلوک کے خلاف مجلس نظما اور شاہی کونسل تک میں کیس دائر کیا۔ اس زمانے میں کیس اس نے ہارنا ہی تھا مگر آج بھی مسٹر بکنگھم کو برطانوی ہند میں میڈیا کی آزادی اور لبرل ازم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک تصور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ابتدائی دور سے ہی موجود تھا جبری واپسی یا ایسے ہی ہتھکنڈے اس تصور کو، ان نظریات کو بتدريج ترقی پانے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
یہ کوئی بہت پرانی داستان نہیں کہ جب جنرل مشرف نے نومبر 2007ءکی ایک عجیب و غریب ایمر جنسی نافذ کی تو انہوں نے ٹی وی پر خطاب کیا اور انگریزی میں مغرب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے موجودہ جمہوری نظام صدیوں میں حاصل کیا ہے اور ابھی ہم اس تک نہیں پہنچ سکے اور اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اب میرےجیسا حکمران اور نظام حکومت ہی ان کا مقدر ہونا چاہئے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی میڈیا اور میڈیا کے افراد پر پابندیاں عائد کیں مگر نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ وہ ان تمام اقدامات کے باوجود اپنے اقتدار کو ماضی کی كکريہہ داستان بننے سے نہ روک سکے۔ جب 2017ءجولائی میں عدالتی اقدام جمہوریت کو نگل گیا تو اسکے بعد نواز شریف نے لاہور واپسی کیلئے جی ٹی روڈ کا انتخاب کیا۔ آج کل کا ہتھیار ٹی وی کی براہ راست کوريج تھی مگر اس كکوريج پر اتنی پابندیاں تھیں کہ نواز شریف کی تقریر کے وقت ایک دو چينلوں کے علاوہ سب کی آواز بند کر دی جاتی تھی۔ مگر کیا اس آواز بند کرنے سے نواز شریف کی آواز کو روکا جا سکا۔ جواب نفی میں آئے گا۔
اب ماضی کے جھروکوں سے چاہے ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور کو پیش نظر رکھا جائے یا نواز شریف کے جی ٹی روڈ مارچ کی کوريج کے واقعات، ایک بات بالکل سامنے کی ہے کہ انتظامی اقدامات سوچ کو ختم نہیں کر سکتے ہیں۔ ابھی ماضی کی پی ٹی آئی حکومت کے سربراہ منہ پر ہاتھ پھیر پھیر کر اپنے مخالفين کے خلاف اقدامات کا اعلان کیا کرتے تھے۔ نتیجہ کیا نکلا؟ یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ 17اپریل 1993ءکی تقریر کے وقت سے لے کر آج تک نواز شریف کو ’’نو‘‘ کہنے کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس وقت بھی اگر کہیں سے دباؤ بھی آ رہا ہے کہ ان لوگوں، صحافی حضرات کے متعلق سخت رويہ اپنایا جائے تو دباؤ ڈالنے والوں کو یہ یقین دلانا چاہئے کہ ہم ان لوگوں کا سیاسی پچ پر مقابلہ کر لیں گے کیوں کہ سیاسی پچ پر مقابلہ کرنے میں ہی جمہوری قوتوں کیلئے عافيت ہوتی ہے۔