• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

سلیم اختر کی علالت کے دوران صرف دو لوگ متواتر ان کی طرف جاتے رہے ان میںسے ایک خاتون تھی جو غالباً پی ایچ ڈی کر رہی تھی اور ان سے مدد کیلئے ان کے پاس آتی تھی۔ میں روزانہ ان کی طرف تو نہیں جاتا تھا مگر ہفتے میں ایک دوبار ضرور جانا ہوتا تھا، وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور یہ گلہ بھی کرتے کہ ادیبوں میں سے کسی کو پروا نہیں کہ میں کس حال میں ہوں، اس پر میں انہیں تسلی دیتا اور کہتا وہ مجھ سے آپ کا حال پوچھتے رہتے ہیں۔ ان کی علالت کے دوران ان کی اہلیہ اور ان کی اولاد نے اس بڑے انسان کی بہت خدمت کی۔ ان کے ساتھ دوسرا گھر اسلم کمال کا تھا اور چند قدم کے فاصلے پر ارشاد صدیقی کی رہائش گاہ تھی، برابر والی گلی میں صحافی انور قدوائی، رفیق ڈوگر اور دوسرے بہت سے ادیب اورصحافی رہتے تھے، یہ سب ایک ایک کرکے اللہ کو پیارے ہوتے چلے گئے اور ایک دن ہمارے سلیم اختر بھی ان کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ میں قدرے ڈھیٹ واقع ہوا ہوں۔ ادیبوں میں میرے قریبی دوست امجد اسلام امجد، خالد احمد اور نجیب احمد تھے، انہیں بھی زیادہ دیر اس ویرانے میں رہنا پسند نہ آیا اور انہوں نے اپنے لئے دودھ اور شہد کی نہروں والے دیار میں رہنا پسند کیا اور ہنسی خوشی میرے سب ہم عصروں اور دوستوں کے قافلے میں شامل ہوگئے مگر میں بے وفا ان کے ساتھ نہ جا سکا۔

ناروے میں سفارت کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے جمشید سرور اور جہانگیر نواز میرے بہت قریبی دوست تھے۔ جمشید شاعر تھا اور پاکستان سے اقامت کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ کرلاتا، جمشید اس پاکستانی جو پنجابی اور اردو کے سوا کوئی زبان نہ جانتا تھامتعلقہ افسر اور اس پاکستانی کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ترجمہ کرتاتھا۔ جہانگیرکا پب تھا میں جب کبھی تکلفات سے بھری مصروفیات سے ’’تنگ پڑ جاتا تو‘‘ جہانگیر کی طرف چلا جاتا اور ہم گپ شپ لگاتے، چنانچہ ہم لوگوں کی عادت کے مطابق کچھ لوگوں نے مشہور کردیا کہ سفیر صاحب ہر وقت نشے میں دھت رہتے ہیں، مجھے یہ سن کر سخت غصہ آیا ،اس موقع پر ان پاکستانیوں نے جو باقاعدگی سے پب آتے تھےمجھے دیکھتے تھے انہوں نے اپنے ملنے جلنے والوں کو بتایا کہ ہم انہیں وہاں بیٹھا تو دیکھتے ہیں کہ جہانگیر کے پرانے دوست ہیں لیکن انہوں نے کبھی مے نوشی نہیں کی، پتہ تو ان لوگوں کوبھی تھا جو کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑنے کے عادی تھے مگر وہ اپنے پراپیگنڈے سے باز نہ آئے۔ ایک روز رات کو گیارہ بجے گھنٹی سنائی دی، میرا ڈرائیور بہادر نیچے گیا تو دو تین لوگ وہاں کھڑے تھے، انہوں نے کہا کہ ہم نے سفیر صاحب سے ملنا ہے، بہادر نے کہا وہ سو رہے ہیں، اسے کہا گیا پھر کیا ہوا انہیں جگا دو۔ بہادر نے جواب میں کہا میں ایسا نہیں کرسکتا۔ یہ سن کر وہ غصے میں آگئے اور دروازے پر ٹھڈا مار کر یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ موصوف نشے میں دھت ہوں گے اس لئے ملنے سے گریز کر رہے ہیں، ان حضرات کاتعلق پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی جماعت سے تھا، اس دن میں نے محسوس کیا کہ جو سفیر صاحبان اپنے دفترکے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے رکھتے ہیں اور کھانوں میں شہر کے صرف ایلیٹ کلاس کے لوگوں کو مدعو نہیں کرتے بلکہ اس طبقے کو جنہیں عوام کہا جاتا ہے وہ بھی ان کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں، ان کے مقابلے میں وہ افسران ٹھیک کرتے ہیں جو ہر پاکستانی کے ساتھ برابری کاسلوک نہیں کرتے بلکہ کچھ کو دفتر میں قدم رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی، اس سوچ کے باوجود میں نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے اپنے گھر اور دفتر کے دروازے سب کیلئے کھلے رکھے۔جمشید سرور بہت پکا شاعر تھا اسے نارویجن حکومت سے شاعری کے حوالے سے ایک ایوارڈ بھی ملا تھا، ہماری بھابی اللہ ان پر رحمتوں کی بارش کرے وہ سماجی کاموں میں بہت ایکٹیو تھیں چنانچہ ایک سٹریٹ ان کے نام سے شروع ہوتی تھی۔ جمشید بہت دلچسپ آدمی تھا ایک دفعہ پاکستانیوں کی ایک تنظیم نے جمشید سے کہا کہ ذرا ضیا محی الدین کو لنچ کیلئے لے جائیں،جمشید نے کہا کیوں نہیں اور پھر ضیا محی الدین کو اپنے ساتھ چلنے کیلئے کہا وہ ساتھ چل دیئے کہ پارکنگ لاٹ میں کھڑی اپنی کار کی طرف جا رہے ہیں ،مگر کچھ دیر بعد انہیں پتہ چل گیا کہ ایسی کوئی بات نہیں، جتنا بھی سفر ہے پیدل ہی چلنا ہے، سو وہ چلتے رہے، چلتے رہے، بالآخر ایک جگہ جمشید رک گئے، یہ میک ڈونلڈ تھا جمشید نے انہیں اندر چلنے کیلئے کہا مگر جب بورڈ پر ان کی نظر پڑی جس پر میک ڈونلڈ جلی حروف میں اس عوامی ریستوران کا نام لکھا تو وہ وہیں سے واپس لوٹ گئے۔ جمشید نے مجھے یہ واقعہ سنایا اور کہا وہ کیسا آدمی تھا جسے میں برگر کھلانے کیلئے لایا تھا اور وہ مائنڈ کرکے واپس چلا گیا، میں نے کہا یار وہ پاکستان کا بہت اہم شخص ہے اور اس کا شمار ایلیٹ کلاس میں ہوتا ہے اور تم اسے پیدل چلا کر میک ڈونلڈ لے آئے۔ اس پر جمشید نے کہا تو میں نے کون سا برا کیا، میں نے اسے صرف برگر ہی نہیں کھلانا تھا ،فرنچ فرائز اور کوک کا آرڈربھی دیا تھا مگر جمشید کو آخر تک میری سمجھ نہیں آئی اور حیرت سے کہتا رہا ’’عجیب آدمی ہے، عجیب آدمی ہے‘‘۔

جمشید نے مجھے ایک عجیب و غریب بات بتائی اس کی ساری عمر اوسلو میں گزری ہے چنانچہ وہ ان کے نظام کا حافظ ہے۔ جمشید نے بتایا کہ حکومت ہر شخص کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے، خواہ وہ اس سے بے نیاز ہو، چنانچہ پاگل خانوں میں جن پاگلوں کی عمر ساٹھ سال تک ہےحکومت ان کی جنسی ضروریات پوری کرتی ہے اس کا پس منظر اور منطق یہ ہے کہ وہ پاگل ہے اسے علم نہیں کہ اس کی یہ ضرورت کیسے پوری ہو مگر حکومت تو پاگل نہیں اسے تو علم ہے کہ ان لوگوں میں یہ ضرورت اسی طرح ہے جیسے عام انسانوں کی ہوتی ہے چنانچہ وہ ہر ہفتے دو نرسیں اس کی طرف بھیجتی ہے ایک نے اپنے ہاتھوں سے یہ ڈیوٹی انجام دینا ہوتی ہے اور دوسری صرف یہ دیکھنے کےلئے اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے کہ وہ اپنی ڈیوٹی کما حقہ انجام دے رہی ہے کہ نہیں۔ میرے لئے یہ بات بہت عجیب تھی مگر ان کا استدلال ہے کہ جب حکومت عوام کے روزگار، ان کی رہائش اور ان کے کھانے پینے سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت پوری کرتی ہے تو کیا پاگل انسان نہیں ہیں۔ہماری حکومت کو سوچنا چاہیے کہ وہ صحیح الدماغ عوام کی ضروریات کیوں پوری نہیں کرتی، ہم اسلام ،اسلام کہتے رہتے ہیں، مگر عدل اور مساوات ہمیں کافر ملکوں میں نظر آتی ہے،کیا اسلامی ملکوں کو کسی آرڈیننس سے یہ رعایت دے دی گئی ہے کہ وہ ہر عدل اور مساوات سے ماورا ہیں، بس نمازیں، روزے، حج اور زکوٰۃ ہی اسلام ہے باقی ذمہ داریاں کافروں نے اٹھائی ہوئی ہیں۔ (جاری ہے)

تازہ ترین