یوگو سلاویہ کے باغی سیاست دان اور ادیب ’’ملوں دی جلاس‘‘ کی کتاب "Land without of Justice" یعنی ’’انصاف سے عاری سرزمین‘‘ گزشتہ صدی کے پانچویں عشرے میں شائع ہوئی، جس کے بیانیے میں وہ داستان رقم ہے جو درد کا سمندرہے، وہ سمندر جس میں دکھوں کی ندیاں رخساروں سے ڈھلکتے ہوئے آنسوؤں کی لکیروں کی طرح سرکتی سرکتی سمندر میں جذب ہوجاتی ہیں اور انصاف کی متلاشی آنکھیں کھو دیتی ہیں۔
وہ آنکھیں جن کے بارے میں مغرب کے ایک اور باغی ادیب ’’وکٹر سرگی‘‘ نے اپنے ایک ناول ’’کامریڈ تلیابف‘‘ میں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’مائی لارڈ! ہماری آنکھیں آئینہ ہیں۔
تم ان آئینوں کو توڑنا چاتے ہو، کیوں کہ ان آئینوں میں تم اپنا عکس دیکھ رہے ہو، وہ عکس جس میں تم اپنے آپ پر فتوے صادر کرتے نظر آتے ہو، تم ان آئینوں سے ڈرتے ہوں کیوں کہ تم انصاف نہیں دلاتے‘‘۔
’’وکٹر مرگی‘‘ کے ناول کا یہ کردار حقیقت کے کتنے قریب ہے، اس کا اندازہ امریکا کی سیاہ فام انقلابی خاتون اور بلیک پینتھر پارٹی کی سرگرم کارکن ’’انجیلا ڈیوس‘‘ کی اس تقریر سے بہ خوبی ہوسکتا ہے جو اس نے نیویارک میں ایک جلسے میں کی تھی۔
اپنے خطاب میں انجیلا نے کہا تھا ’’کہاں کا قانون، کیسا انصاف، کیسی عدالتیں، یہاں تو جس کے پاس مہنگا وکیل ہے، وہ مقدمے سے بری ہوجاتا ہے اور جو غریب قیدی ہے، وہ وکیل نہ ہونے کے باعث جیلوں میں پڑا رہتا ہے، خصوصاً خواتین، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور جن کے اپنوں نے ان پر جھوٹے مقدمے دائر کرکے انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا، اب وہ انصاف مانگیں بھی تو کس سے؟‘‘
انجیلا ڈیوس لاوارث بچوں اور خواتین قیدیوں کو عرصے سے انصاف دلانے کے لیے سر توڑ کوششیں کررہی ہے۔ ناکامی کے بعد ججوں کو جلی کٹی بھی سناتی ہے۔ اپنے مقصد میں وہ کس حد تک کام یاب ہوئی، اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے لیکن تاریخ کے صفحات گھنگالتے گھنگالتے اتنا احساس ضرور ہوگیا کہ انصاف کی کشتی میں ناانصافیوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہےکہ اس کا سمندر کی سطح پر تیرتے رہنا اور ساحل تک پہنچنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ایک دو نہیں ہزارہا خواتین انصاف کی منتظر ہیں، ایسے میں کوئی قانون کو توڑ کر آگے بڑھیں تو ان کا انجام بھیانک ہوا، کسی کا عدالت کے احاطے میں قتل ہوا تو کسی کا گھر کی دہلیز پر ،یہی نہیں جیلوں میں پناہ گاہوں میں بھی ان کی سانس کی ڈوری توڑ دی گئی۔بار بار ان کے صبر کا امتحان لیا جاتا ہے، انہیں شاہد ہمارے صبر کا ۔۔نہیں معلوم ۔
تصویروں، اخباری صفحوں اور ہڈیوں کے ڈھیر کی صورت میں ایسی بے شمار کہانیوں کے کردار دبے ہوئے ہیں جن کے ساتھ تقدیر نے سانپ سیڑھی کا کھیل کھیلتے ہوئے انہیں انصاف نہ ملنے پربلندی سے نیچے گرادیا، ان میں سے کچھ کرداروں کی آوازیں عدالت میں گونجیں تو کچھ ٹی وی چینلز اور اخبارات کا حصہ بنیں اور کچھ شور مچاتی زمیں بوس ہوگئیں۔ ان ہی کہانیوں کا ایک کردار تیرہ سال، رمشا وسان ہے، جو چھٹی جماعت کی طالبہ تھی۔
خیرپور میرس ضلع میں کونڈی تحصیل کے قریب والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ اپنے نازک پروں پر بھاری بھاری خواب رکھے محو پرواز تھی کہ ایک دن اغوا ہوگئی، سات دن تک غائب رہی، جب لوٹی تو گھر کی دہلیز پر اسے گولیاں مارکر قتل کردیا گیا۔ پولیس نے غیرت کے نام پر قتل قرار دے دیا۔
تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ رمشا کا قصور یہ تھا کہ وہ چند جماعتیں پڑھ کر سوال جواب کرنے لگی تھی۔ وڈیرہ شاہی، بچیوں کے لیے جرگوں ،کاروکاری بیٹا بیٹی میں امتیاز،نا انصافی اورپنے مستقبل پر ایسے ایسے سوال کرتی کہ سننے والے دنگ رہ جاتے، بس لمبی چپ ان کا جواب ہوتی۔ یہ بات وڈیروں تک بھی پہنچ گئی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، نتیجہ بھی وہی نکلا جس کی اُمید تھی یعنی قتل کر دی گئی۔
رمشا کی اسکول کی تختی پر بہت سے لفظ لکھے ہیں لیکن اب اس پر کون سا لفظ لکھا جائے گا، یہ سوچنا پڑے گا، بظاہر قاتل گرفتار ہوگئے لیکن ٹی وی اسکرین پر اینکرز ایسے خاموش ہوگئے جیسے یہ بھی کچھ بولیں گے تو ان کی زبانیں کاٹ دی جائیں گی۔ رمشا کے قتل کو ایف آئی آر میں ’’کاروکاری‘‘ کا معاملہ اور ’’کاری‘‘ کی گئی لکھا گیا۔ یعنی قتل کی وجوہ کو فوری جذبے کے تحت کیا جانےوالا جرم کہا گیا، جو ملزم نے طیش میں آکر کیا۔ لگتا ایسا ہے کہ نظام سیاست میں انصاف سے زیادہ قاتل بڑا ہے۔
نپولین نے کہا تھا، ’’دنیا کے مصائب کی وجہ برے لوگوں کا تشدد نہیں، اچھے لوگوں کی خاموشی ہے‘‘۔ غیرت کے نام پر قتل میں خاموشی بھی حائل ہے۔ سال گزشتہ کے آواخر میں ایک روح فرسا رپورٹ منظرعام پر آئی۔ گرچہ پڑھنے والوں کو اس رپورٹ میں کوئی چونکا دینے والی بات نظر بھی نہیں آئی ہو گی، کیوں کہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے خلاف قانون سازی اور سزائیں نافذ ہیں لیکن اس کے باوجود ان میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں ہوئی ،کل کی طرح آج بھی یہ جرم کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں ہورہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تہذیبی ترقی کے سفر میں ایسا لگتا ہے کہ 21ویں صدی میں بھی ہم پندرہویں صدی میں کھڑے ہیں، کل بھی صنفی امتیاز ہوتا تھا،آج بھی ہو رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق بہت سے ممالک میں آج بھی عورتوں کے خلاف امتیاز پر مبنی قوانین ہیں۔ بعض مواقع پر جب خواتین نے امتیازی قوانین کی خلاف ورزی کی تو ان پر نہ صرف تشدد کیا گیا بلکہ انہیں ظالمانہ سزائیں دی گئیں۔ گرچہ گزشتہ چار دہائیوں پر محیط خواتین کی تحریکوں کے نتیجے میں آج خواتین کو روزمرہ زندگی میں درپیش خلاف ورزیوں کی بہتر آگاہی ہے۔
انہوں نے اپنے حقوق کی جدوجہد میں بڑے معرکے سر کئے ہیں، پھر بھی انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے، خواہ وہ مشرق کی عورت ہو یا مغرب کی، ترقی پذیر ملک سے تعلق ہو یا ترقی یافتہ سے، صنفی امتیاز دنیا کے ہر خطے کی عورت سے روا رکھا جارہا ہے۔
امریکا جو خواتین کو حقوق دلانے کا خود کو چیمپئن سمجھتا ہے، وہاں بھی عورتوں کو مردوں کے مساوی ٹھہرانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کے ساتھ مردوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق چین، سری لنکا، بلغاریہ، بھارت اور پاکستان سمیت برطانیہ، امریکا بھی خواتین کو ہراساں کرنے اور صنفی تفریق میں پیچھے نہیں ہیں۔
معاشی محرومیوں کا شکار سری لنکا، بنگلہ دیش، بھارت اور افریقا سے ہر سال ہزارں عورتوں اور لڑکیوں کو گھر کے مرد ہی گھریلو ملازمت کے بہانے مختلف ممالک میں اسمگل کردیتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں امتیازی قوانین کے نظام میں پائے جانے والے رویے خواتین کی شکایات درج کرانے میں حائل ہوتے ہیں۔ قانون سے ہی سماج بنتے ہیں، ترقی کرتے ہیں لیکن جب معاشرے کی گاڑی قانون کی پٹری سے اتر جاتی ہے، تب ایک نہیں لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں۔
جس معاشرے کی خواتین ناانصافی کی تنی ہوئی رسی پر چلتے چلتے اپنا توازن کھو بیٹھیں، اس معاشرے کو کیا کہا جائے گا۔ تیسری دنیا کے غریب ممالک ناانصافی، جہالت اور بھوک کی ذلت میں کچھ اس طرح گھر گئے ہیں کہ ان کے پاس نہ تو اپنی محرومیوں کا کوئی علاج ہے اور نہ ہی وہ اپنی خواتین کو تحفظ دے پارہے ہیں۔
حیرت ہے حد سے زیادہ ترقی کرتی ہوئی دنیا میں آج بھی عورت معاشرتی مقام اور انصاف سے محروم ہے۔ روٹی ہی نہیں پانی کی بوند بوند کو بھی ترستی ہے۔ بھلا گزشتہ سال سندھ کے علاقے کاجھو میں رونما ہونے والا واقعہ کوئی بھول سکتا ہے۔
یہ جولائی کے وسط کی بات ہے جب لوکے جھکڑ پیاس کی شدت کے تیز کررہے تھے، ایسی آگ برساتی گرمی میں جب چیل بھی اپنا انڈا چھوڑ دے، کاجھو کی رہائشی ایک ماں اپنے سات سالہ بیٹے کے ساتھ پانی تلاش کررہی تھی۔ بستیوں سے کہیں دور کھلے میدانوں اور سبزے سے محروم سوکھے خشک اور تپتے ہوئے ٹیلوں کے درمیان اس کی زندگی کا طویل عرصہ گزرا لیکن اس دن وہ اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں جاتے ہوئے راستہ بھول گئی۔ کاجھو کے پہاڑی علاقے میں دھوپ میں بھٹکتے بھٹکتے پیاس نے ماں بیٹے کی زبان خشک کردی، حلق میں کاٹنے پڑنے لگے لیکن پانی ملنا تھا نہ ملا، دونوں ماں بیٹا پانی کہتے کہتے بنجر زمین پر گرے اور دم توڑ گئے۔
کاجھو میں پیاسے ماں بیٹے کی موت اس تلخ سچائی کی ہلکی سی جھلک ہے، جو بریکنگ نیوز بھی یوں بنی کہ انہیں جنگل کے کسی جانور نے نہیں کھایا تھا، اگر کھالیتے تو کسی کو پتا بھی نہ چلتا کہ وہاں تو روز ہی کوئی پیاس سے، کوئی بیماری سے اور کوئی بھوک سے موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے لیکن ایسا انجام کسی کا دیکھا نہ سنا تھا جیسے کاجھو کی، بے بس ماں کا ہوا۔
اگر اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے تو وہ اپنے پیاسے بیٹے کو زبان اور حلق کو ان آنسوؤں سے تر کردیتی، مگر زندگی کی کڑکتی دھوپ نے اس کی آنکھوں کے سوتے بھی خشک کردیئے تھے۔ اس کے پاؤں تھک کر ’’کاچھو‘‘ کا پتھر بن گئے اور خود پتھراکر بیٹے سمیت موت کی آغوش میں پیاسی چلی گئی۔ اس کے گھر میں شاید پانی تھا نہ روٹی، تب ہی وہ خالی ہاتھ تن کے کپڑوں میں بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکلی تھی۔
اس بھوکی، پیاسی اور بیماروں سے بھری دھرتی میں کہنے سننے کو بہت کچھ ہے لیکن مسند اقتدار پر بیٹھے، اپنی سیاست چمکانے والوں کو کیا پتہ کہ ہر انسان کو پیاس لگتی ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ پانی کی تلاش میں بچے، بڑے، سنگریز میدان میں چلتے ہوئے گرجاتے اور آہستہ آہستہ مرجاتے ہیں۔ انہیں کیا پتا کہ بیمار غریب، بچوں کو کاندھے پر اٹھاکر کئی کلو میٹر کا فاصلہ پید ل یا گدھا گاڑی میں شہر کے اسپتال لانا کیا ہوتا ہے۔
ان کو تو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ جب ایک بیمار بچے کی ماں خالی ہاتھ، خالی نظروں سے پیاسی زمین کو گھورتے گھورتے اتنی دیر کردیتی ہے کہ بچے کو دوا کی ضرورت ہی نہیں رہتی لیکن اس صورت حال سے دورچار صرف عورت ہوتی ہے،کیوں کہ مرد سے زیادہ عورت غربت سے دوچار ہوتی ہے۔
امریکا کے سابق وزیرخارجہ، ہنری کسنجر نے اپنے دور میں ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’جو ملک خوراک کو کنٹرول کرلے، وہ پوری دنیا پر حکم رانی کرسکتا ہے، کیوں کہ کوئی بھی اپنے بچوں یا پیاروں کو بھوکا پیاسا نہیں دیکھ سکتا اور سر جھکا دیتا ہے۔‘‘حال ہی میں امریکی جریدے ٹائم میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ تیسری دنیا کے بیش تر افراد اپنی آمدن کا زیادہ حصہ دو وقت کی روٹی پر خرچ کردیتے ہیں، پھر بھی ان کی عورتیں اور بچے بھوکے سوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ہر روز تقریباً 80کروڑ بچے اور اس سے کہیں زیادہ عورتیں بھوکی سوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے، یو این ڈی پی کی مرتب کردہ انسانی وسائل کی ترقی کی رپورٹ میں درج ہے کہ ’’جب عورتیں کم بچے پیدا کریں گی تو ان کی صحت ان خواتین کے مقابلے میں اچھی ہوگی جو تقریباً ہر سال یا دوسرے سال حاملہ ہوتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ، کیا عورت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بچوں کی تعداد مقرر کرے؟
درحقیقت ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں، جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ وہ فنا اور بقا کی قوتوں کے درمیان ایک کش مکش سے دوچار ہے۔ ایک جانب محل نما بنگلے اور قلعے نما محل نظر آتے ہیں، جہاں بچے صاف شفاف سوئمنگ پول میں مچھلی کی طرح تیرتے ہیں، جن کے ہرے بھرے لان میں بھی آلودہ پانی نہیں ڈالا جاتا، جن کے فریج میں منرل واٹر کی بوتلیں بھری ہوئی ہیں۔
دوسری طرف خزاں رسیدہ پتوں کی طرح کچے مکانات اور جھونپڑیوں کی یلغار ہے، جہاں لالٹینیں بھی جلتی ہیں اور دل و دماغ بھی۔ وہ علاقے بھی ہیں جہاں آسائشوں رکا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا اور وہ بستیاں بھی ہیں جہاں ضرورتوں کے چراغ مدھم مدھم جلتے ہیں۔
یہ کش مکش امیر و غریب کے درمیان ایک ایسی سرد جنگ ہے جو عملی زندگی کے ریگ زاروں کے ساتھ سب کے ذہنوں میں لڑی جارہی ہے،جن سے زیادہ تر خواتین دو چار ہوتی ہیں۔مانا کہ زندگی میں جو دکھ ہوتے ہیں وہ ہمیں سزا دینے کے لئے نہیں بلکہ ہماری آنکھیں کھولنے آتے ہیں لیکن کوئی مسیحا تو آے چارہ گری کے لیئے، جو دے سکون، امن واماںو انصاف کہ، زیست انصاف چاہتی ہے۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا میں خواتین کو انصاف نہیں مل رہا،برابری نہیں مل رہی، حقوق نہیں مل رہے، اُنہوں نے اپنے حقوق کے لیئےبڑے معرکے سر کیئے ہیں پھر بھی انہیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔
آج کی عورت پرانی سماجی اقدار سے بغاوت کرکے ایک تحریک منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو اس تصور پر استوار ہے کہ، اب صنفی امتیاز کو ختم ہونا چاہیے اور عورت کو بہ طور انسان وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں جو ایک مرد کو حاصل ہیں۔
گرچہ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ خواتین میں تعلیم عام ہونے اور میڈیا کے طاقت ور کردار سے لوگوں میں شعور بیدار ہوا ہے اور خواتین کو کم تر سمجھنے کے رجحان میں بڑی حد تک کمی ہوئی ہے، لیکن پاکستان سمیت بیش تر ممالک میں صنفی امتیاز اور مردوں کی حاکمیت آج بھی ہے۔
خواتین ٹی بیگ کی طرح ہوتی ہیں سابق امریکی خاتون اول،روز ویلٹ
سابق امریکی خاتون اول، روز ویلٹ نے اپنے دور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’خواتین ٹی بیگ کی طرح ہوتی ہیں، جب تک گرم پانی میں نہ ڈالو، ان کی طاقت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، برسوں قبل کہی اس بات کی تصدیق چند سال قبل یونی ورسٹی آف سدرن، ڈنمارک کی ایک تحقیقی رپورٹ سے بہ خوبی ہوتی ہے، جس میں درج ہے کہ خواتین مردوں کے مقابلے میں المیوں اور دباؤ کا بہت مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں، کام سے اپنے آپ کو منواتی ہیں۔
لیکن جب تفریق اور ناانصافی سے جنگ لڑتے لڑتے تھک جاتی ہیں تو پھر اپنی بپتا سناتی ہیں۔ اس وقت ان کے لہجے کی کاٹ سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ سچ بول رہی ہیں، ایسا سچ جسے سننے والے بیش تر مرد جھوٹ کہتے ہیں۔ رپورٹ میں خواتین کو ہراساں کرنے، اہم عہدوں پر فائز خواتین کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کے بارے میں بھی درج ہے۔
نئے دور کی کروٹ
چند سال قبل ’’غربت اور خواتین کے معاشی مسائل‘‘ سے متعلق ایک کانفرنس کا انعقاد، یونی ورسٹی آف کیپ ٹائون (سائوتھ افریقا) میں ہوا۔ کانفرنس میں یہ سوال زیر بحث آیا کہ، غربت کا شکار مرد بھی ہوتے ہیں، پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ غربت سے مردوں سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیں؟ اس سوال کا جواب امریکا کے معروف دانش ور، نوم چومسکی نے یہ دیا کہ، اس وقت جب میں آپ سے مخاطب ہوں، دنیا میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچے ایسی بیماریوں سے مر رہے ہوں گے جن کا علاج انتہائی سستا اور سادہ ہوگا۔
نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے ہزاروں غریب مائیں موت کو گلے لگا رہی ہوں گی۔ اگر دوران حمل انہیں صحت بخش غذا، پیٹ بھر کھانے کو مل جاتا تو ان میں موت سے مقابلہ کرنے کی سکت ہوتی۔
غریب گھرانوں کے مردوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ماں بننے والی عورتوں کو پروٹین، فولاد اور آیوڈین سے بھرپور غذا فراہم کریں گے، ممکن ہی نہیں، جس دن سے کوئی غریب عورت نئے وجود کی پرورش کرنا شروع کرتی ہے، اسی دن سے وہ صحت کے اضٗافی مسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔
گرچہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم، نا انصافیوں کے خلاف ایک عورت بہت کم بولتی ہے اور وہ جو بھی کہتی ہے، اس کے دل میں اس سے کہیں زیادہ کہنے کو ہوتا ہے۔ لیکن وہ خاموش رہ کر صنفی تفریق کا مقابلہ کر رہی اور اپنے بچوں کی زندگی بدل رہی ہے۔ اپنے ہنر سے وہ اور اس کے بچے دو پیسے کما رہے ہیں یہ نئے دور کی کروٹ ہے۔
صنفی تفریق کے خاتمے ہی سے ترقی ہوگی
ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق امریکامیں ملازمت پیشہ افراد میں صنفی اعتبار سے پایا جانے والا فرق ختم ہونے سے امریکا کا جی ڈی پی 9فی صد بڑھ جائے گا۔ برازیل، روس، بھارت اور چین کے علاوہ گیارہ ممالک جن میں بنگلہ دیش، پاکستان، مصر، انڈونیشیا، ایران، میکسیکو، نائیجریا، فلپائن، جنوبی کوریا، ترکی اور ویت نام شامل ہیں، ان ممالک میں ملازمین میں پائے جانے والے جینڈر گیپ کے خاتمے سے ان کی فی کس آمدنی میں 2027 تک 14فی صد اور2030تک بیس فی صد اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک میں خواتین اپنی آمدنی کا90فی صد جب کہ مرد 30سے40فی صد اپنے خاندان پر خرچ کرتے ہیں۔
کئی تحقیقاتی رپورٹس اس بات کا انکشاف کرچکی ہیں کہ جن کمپنیوں کے فیصلہ سازوں میں خواتین شامل ہیں انہوں نے نسبتاً کم خواتین فیصلہ ساز رکھنے والی کمپنیوں سے زیادہ معاشی ترقی کی ہے، اس ترقی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں صنفی تفریق نہیں ہے۔ ترقی اسی وقت ممکن ہوگی جب مرد، عورت کو خانوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
لیکن یہ مسئلہ صرف غریب اور پس ماندہ اقوام کا ہی نہیں، جدید ترقی یافتہ اور روشن خیال مغربی ممالک میں بھی صنفی تفریق کا سامنا ہے، مگر وہ وقت ضرور آئے گا اور جلد آئے گا جب خواتین کی اہمیت تسلیم کرنا پڑے گی۔
آزادی نسواں کا نعرہ لگانے والی خواتین نے عورتوں کو گھروں سے باہر لاکھڑا کردیا
آسڑیلوی مصنفہ پروفیسر شہلا جیفریز نے چند سال قبل ایک کتابچہ بعنوان "Love your Enemy" تحریر کیا تھا، جس میں اس نے عورتوں کے مردوں کی خاطر سجنے سنورنے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس رویے کو ’’دشمن سے محبت‘‘ قرار دیا تھا۔
کتابچے میں لکھا ہے ’’آزادی نسواں کا نعرہ لگانے والی خواتین عورتوں کو آزاد کراسکیں، نہ ان کو حقوق دلاسکیں، مگر انہوں نے عورتوں کو گھرں سے باہر لاکھڑا کردیا‘‘۔ پروفیسر شہلا کے نزدیک عورت اور مرد کی مساوات کی باتیں بالکل فضول ہیں۔
وہ صنفی برابری کے نعرے کو مردوں کی مکاری قرار دیتے ہوئے لکھتی ہیں، ’’عورت تو خود مرد کی تابع و مطیع ہوکے رہ گئی ہے۔ انہوں نے اپنے پیروں میں بندھی زنجیریں اس طرح توڑ دیں کہ ترقی یافتہ ممالک بھی یہ کہنے اور تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ صنفی مساوات اس وقت تک ناممکن ہے جب تک خواتین کو سماجی پیداوار کے کام سے الگ رکھ کر خانہ داری کے کام تک جو بھی کام ہیں، محدود رکھا جائے گا‘‘۔
جہاز توڑ کمپنیوں سے ٹکر لینے والی چٹاگانک کی وکیل
چٹاگانک کی ایک وکیل سیدہ رضوانہ حسن نے تن تنہا جہاز توڑ کمپنیوں سے ٹکر لی اور اپنے مقصد میں کام یاب ہوگئیں لیکن اب ان کی جان کو خطرات لاحق ہیں۔ چند سال قبل رضوانہ نے نمائندہ خلیج کو دیئے گئے انٹرویو میں بتایا، میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ باہر والے بنگلہ دیش کو کوڑادان سمجھیں۔ یہ میری قوم اور میرے ملک کی آن کے خلاف ہے۔
دس بارہ سال قبل روزانہ ہزاروں بنگلہ دیشی مرد ساحلوں کا رخ کرتے، جہاں وہ بحری جہازوں کو توڑتے، جہاں ان گنت خطرے مثلاً دھاتوں کے کٹنے سے نکلنے والا کثیف دھواں، مضر صحت گیسیں، کیمیکل وغیرہ ان کے منتظر ہوتے، پھر آگ لگنے یا دھاتیں گرنے سے بھی وہ موت کے منہ میں چلتے جاتے، جو زندہ بچ جاتے انہیں کوئی موذی بیماری چمٹ جاتی۔ جب یہ کارکن پانچ چھ سال کام کرکے اپنے گاؤں واپس جاتے تو وہ ’’نوجوان بوڑھے‘‘ ہوتے، تھکن سے ایسے چور کہ کوئی کام کرنے کے قابل نہ رہتے۔ ان لاچار کارکنوں کے لیے میں نے آواز بلند کی۔
جہاز توڑ کمپنیوں اور حکومت پر زور دیا کہ جہازوں پر کام کا ماحول صاف ستھرا اور محفوظ بنایا جائے، ساتھ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ جو غیرملکی کمپنیاں بحری جہاز بنگلہ دیش بھجوائیں، انہیں پابند بنایا جائے کہ وہ انہیں ہر قسم کے کیمیائی مادوں، خطرناک دھاتوں اور گیسوں سے پاک کرکے روانہ کریں۔ سپریم کورٹ نے میرا، استدلال تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ وہ تمام بندرگاہوں میں کارکنوں اور ماحول کا تحفظ کرنے کے سلسلے میں ہر ممکن اقدامات کرے۔‘‘
بنگلادیش میں ہر سال تقریباً 150 بحری جہاز توڑے جاتے ہیں۔ یہ کام یقیناً نوکریاں پیدا کرتا ہے مگر رضوانہ کا استدلال تھا کہ ایسی ملازمت کس کام کی جو انسان کو کینسر کا مریض بنادے۔ رضوانہ خواتین ہی نہیں مردوں کے بھی مسائل سنتیں اور انہیں حل کرنے کی سعی کرتی ہیں۔ وہ کام میں تفریق نہیں کرتیں۔
اپنے خوابوں سے پیچھے ہٹیںنا مردوں سے خوف زدہ ہوں
امریکی تھنک ٹینک کونسل کے ویمن اینڈ فارن پالیسی پروگرام کی ڈائریکٹر، اروبیل کولین نے اپنی کتاب "Paradise Beneath her Feet" میں لکھا ہے کہ خواتین کی زندگی بہتر بنا کر ہی ہم معیشت کو مضبوط اور معاشرے کو زیادہ مفید اور صحت مند بنا سکتے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب صنفی امتیاز ختم ہوگا۔
دنیا کی پہلی ’’خلا باز خاتون کا اعزاز حاصل کرنے والی ایران کی انوشہ انصاری نے اپنی آپ بیتی ’’مائی ڈریم آف اسٹارز‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’میں دنیا بھر کی خواتین خصوصاً نوجوان لڑکیوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ وہ کبھی بھی اپنے خوابوں سے پیچھے نہ ہٹیں اور مردوں سے خوف زدہ ہوکر گھر کی چہار دیواری میں نہ بیٹھیں۔ اپنے حق کے لیے لڑیں۔‘‘