قارئین کرام! اردو عالمی زبانوں میں جدید ترین اثر انگیز زبان ہے۔ تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان میں یہ ہی سب سے بڑی اور موثر رابطے کی زبان تھی۔ اب بھی یہی پورے جنوبی ایشیا کے رابطے کی واحد اور پراثر زبان ہے۔ لیکن ناچیزاپنے صحافتی دائرے میں رہتے اس کی شاعری کا سخت ناقدہے۔ یوں کہ اس پر غزل گوئی کا بڑا غلبہ ہے۔ کسی بھی زبان کی شاعری کی بڑی قدر اور اثر اس کے نیشن بلڈنگ اور سماجی استحکام میں کردار سے عبارت ہے۔ پارٹیشن کے بعد برصغیر میں اس کی بڑی شکل فلمی گیتوں میں ڈھل گئی۔ کوئی شک نہیں کہ غزل کی چاشنی، رومانس اور لطافت کا شباب میں کیا بڑھاپے میں بھی اپنا ہی لطف ہے، لیکن یہ اردو غزل میں اتنا ہوتا ہے جتنا اردو شاعری پر غزل کا غلبہ۔ خاکسار کو اپنی اس تنقید پر ناز تب ہوا جب کوئی سات آٹھ سال قبل بھارتی نژاد امریکی ماہر لسانیات ڈاکٹر ستیا پال لاہور تشریف لائے تو انہوں نے غریب خانے اور پنجاب یونیورسٹی میں اپنے اعزاز میں محفلوں میں اسی اپروچ سے غزل پر سخت تنقید کی۔ مجھے کہا ’’تم غزل کے ناقد ہومیں اس کا دشمن ہوں‘‘ کیونکہ اس نے برصغیر کے نوجوانوں کو سست، کاہل، اداس، حسرت و یاس میں ڈبو دیا اور ان کا رخ مطلوب شبابی تقاضوں کی طرف نہ ہونے دیا۔ وہ نظم کے پر زور حامی ہیں اور اقوام کی تقدیر بدلنے میں نظم کے عالمی کردار پر دسترس رکھتے ہیں۔
قارئین کرام! ڈاکٹر ستیا پال سے ہم آہنگ اپنی اسی اپروچ کو درست کرنے کیلئے غزل کی دیگ سے ایک دانہ آپ کو لفظ ’’یاد‘‘ یا ’’یادداشت‘‘ ہے جو انسانی تجربہ و مشاہدے کی شکل میں ایک بڑا اثاثہ اور قومی تعمیر کے اہم ترین مراحل میں کمال نتائج کا حامل۔ لیکن اردو غزل گو نے ’’یادِ ماضی‘‘ کو عذاب بنا کر پیش کیا۔ اور یاد کا عمومی استعمال ایسے ہی ہوتا ہے۔ جس سے حال و مستقبل پر مایوسی ناکامی و اداسی، اچھے بھلے سرگرم انسان کو بھی مستقل یا وقتی طور پر ناکارہ بنا دیتی ہے۔
یہ جو پھر ملک میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں ۔ ایک کوئی بڑا اہم دہشت گرد ہم نے امریکہ کے حوالے کیا ہے۔ اب ٹرمپ صاحب نے اسلحہ واپسی کیلئے افغانستان آنے اور بٹ گرام ایئربیس کا رخ کرنے کا واضح اشارہ ، امریکی منتخب ایوان سے خطاب کرتے دیا۔ دو تین روز سے ’’پاکستان اور دہشت گردی‘‘ کے موضوع کی میڈیا کوریج سے ماتھا ٹھنک رہا ہے کہ اب پھر نہ پاکستان کے ساتھ ملکی و بیرونی میڈیا کوریج میں دہشت گردی کا لفظ جڑ جائے، پھر اس لعنت کے ساتھ دشمنان پاکستان ہمیں رگیدیں گےجبکہ جمہوری ،سیاسی اور معاشی بحالی کا عمل پہلے ہی بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ لیکن خدا کا شکر پاکستان کے عالمی امن کے عظیم تر کردار کی یادداشت سے ایک بڑا حوالہ یاد آیا، یہ تبھی ہوا کہ جب ناچیز نے کبھی یاد ماضی کو عذاب نہیں جانا بلکہ ہمت و حوصلہ بڑھانے والے اور نامساعد حالات میں ہاتھ پیر مارتے مشکلات سے نکلنے کے واقعات یاد کیے۔ حوالہ یہ کہ پاکستان نے تو اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی ابتدائی برسوں میں اس کے بنیادی ایجنڈے آزادی و خود مختاری و انسانی حقوق کی حفاظت، جغرافیائی سرحدوں کا احترام، حق خود ارادیت، امن و سلامتی کی ضمانت، تنازعات کا پرامن اور عالمی حل وغیرہ کو وسیع تر کرتے ہوئے نو آزاد ترقی پذیر اقوام کی پسماندگی، بیماری، خوراک و صحت کے مسائل حل کرنے، بے قابو آبادی پر قابو پانے اور سماجی ترقی کے ہر ہر شعبے کی طرف کرنے میں پائنر کا کردار کیا۔ اس کا آغاز جنگ کی تباہی سے یتیم بچوں کی بحالی اور انہیں نفسیاتی تحفظ میں لینے کے عارضی فنڈز سے ہوا، لیکن اس کار عظیم کی تکمیل پر پیرس میں اختتامی تقریب سے خطاب میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے مستقل مندوب سید احمد شاہ (المعروف پطر س بخاری) نےیہ تجویز پیش کرکے یونیسیف کو اقوام متحدہ کا مستقل ادارہ بنانے میں اتنا عظیم اور عالمی امن کیلئے بڑا اقدام کیاکہ اس کی پیروی میں سماجی ترقی کے ہر شعبے کے ادارے اقوام متحدہ کے عالمگیر نظام میں شامل ہوتے جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل، ٹرسٹی شپ کونسل وغیرہ کےسیاسی نوعیت کے تنظیمی ڈھانچے پر ناصرف غالب ہوگئے بلکہ اولین اداروں کی نسبت دنیا بھر میں سماجی ترقی کے ایجنڈے پر عملدر آمد سے امن و خوشحالی کے عالمی اہداف حاصل کرنے میں کہیں بڑھ چڑھ کر کامیابی پائی۔ یونیسیف کے قیام کا یہ پس منظر تو میں پہلے بھی دو مرتبہ آئین نو میں دے چکا، لیکن گزشتہ رات میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے ایک بڑے پلیٹ فارم META A Iمیں داخل ہو کر طویل چیٹنگ کے بعد اس حب آف نالج سے یہ تسلیم کرانے میں کامیاب ہوگیا کہ پاکستان کے مستقبل مندوب کی تجویز سے ہی اقوام متحدہ کے ڈھانچے کو وسعت دیتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کی سماجی ترقی کے بے شمار ترقیاتی پروگرامز کا عشروں پر محیط سلسلہ چل نکلا، لہٰذا یہ اس مرتبہ کوحاصل کرنے کا مستحق ہے۔ اس نے بھی مانا کہ پاکستان کا یہ عظیم کریڈٹ متعلقہ ریکارڈ کے اوجھل رہنے سے منظر عام پر نہ آیا۔ اس حوالے سے میٹا اے آئی سے خاکسار کی دلچسپ ترین چیٹنگ کی تمام تفصیلات آئندہ آئین نو میں آشکار کی جائیں گی۔
قارئین کرام! آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ میں نے گزرے ماہ 15 اور 18فروری کی ’’آئین نو‘‘ کی اشاعتوں میں معمول کے موضوعات کی قلمبندی کرتے آپ کو ہوشیار اور خود پر ابلاغی ’’حملہ آوروں‘‘ کو خبردار کیا تھا کہ میری پیشہ ورانہ زندگی شکر الحمد للہ میرے لئے مکمل باعث اطمینان و رحمت خیر برکت و مسلسل شکرہے۔ دانستہ کچھ حوالوں کو من گھڑت حقائق سے مسخ کرکے انہیں میری بقیہ زندگی کے عذاب میں تبدیل کرکے عام کرنے کی گہری سازش کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ یہ ٹولا اپنے اپنے کرتوتوں کے پہاڑ کی اوٹ سے مجھ پر زہریلے تیر چلاتا رہا جس کا آغاز ایک شیطان بزرگ کو استعمال کرکے کیا گیا۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا، نہ مزاج ایسا کہ کوئی وسوسہ پیدا ہواہولیکن خود پسندی میں غرق جس گروہ نے پہلا بم چلوا کر وقفے وقفے سے جو مجھ ناچیز پر زہریلےتیروں کی بارش شروع کی، بفضل خدا اس کا توڑکیا جا رہا ہے، وگرنہ اسلامی جمہوریہ کے نظام عدل میں تو دور دور نہیں، لیکن مدد خدا کا کامل بھروسہ ہوتو نہ ٹینشن اور سکت برابر جواب بھی کیوں نہ ہو کہ حق فائق، گمان غالب تو تھا اب یقین آگیا کہ اسے بڑی مکاری سے تیار کیا گیا کہ مجھے خبر نہ ہو، میرے کردار اور جتنی شہرت اور پیشہ ورانہ خدمات ہیں، اس کو گمراہ کن تصویر میں تبدیل کرکے اپنا بغض بھرا دل ٹھنڈا اور خاکسار کی رسوائی کا دھندا کیا جائے۔ کوئی نہیں، میں کلاّ، پر نہیں، میرے اوپر اللہ۔ شکر الحمد للہ۔ مجبور کردیاگیا کہ جہاں جہاں گمراہی پھیلائی گئی واضح کیا جائے کہ میرا ماضی و حال وہ نہیں جو حملہ آوروں کی شیطانیت میں لپیٹ کر شیطانی ڈیزائن مطابق مکمل بزدلانہ انداز میں عام کرنے کی شیطانیت کا مظاہرہ کیاگیا۔
قارئین کرام! گزری زندگی میں بہت کچھ ہوا، لیکن جس حد تک یہ گئے ہیں بس اللہ ہی انہیں ہدایت دے اور ان کے گھر ایسے کسی بھی شر محفوظ رہیں۔ تاہم اتنا ہوشیار و خبردار رہتا تو ناچیز کا ناچیز ہوتے بھی ناگزیر ہے۔ آپ کی دعائوں اور نیک تمنائوں سے ’’آئین نو‘‘ میں اپنی یاد ماضی کی بیش بہا رحمتوں و برکات و ثمرات کی سچی پکی کہانیاں آپ کو حالات حاضرہ کی بنتی تاریخ سے ملا کر سناتا رہوں گا۔مرد باید کہ ہراساں نہ شود۔