• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنوعی مہنگائی،خصوصاًچینی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں روکنے کی تمام حکومتی کوششیں منافع خور مافیا کے ہاتھوں ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ماہ صیام میں غریب اور عام آدمی پریشان ہے۔آڑھت سے لے کر ریڑھی والا اور دکاندار طبقہ جس پیمانے پر منافع کما رہا ہے،اس کی شرح مقررہ حکومتی پیمانوں سے کہیں زیادہ ہے۔دستیاب اعدادوشمار کے مطابق حالیہ دس ہفتوں میں چینی کی اوسط قیمت اب تک 38روپے فی کلوگرام بڑھ چکی ہے۔132روپے کے حساب سے فروخت ہونے والی یہ جنس آج 170سے180روپے فی کلوگرام میں بیچی جارہی ہےاورکوئی پوچھنے والا نہیں۔حکومتی اقدامات کے باوجود رمضان المبارک کے ایک ہفتے میں چینی کے نرخ 4.96روپےفی کلو بڑھ چکے ہیں۔اشیائے خوردونوش کی ذخیرہ اندوزی ،اسمگلنگ اور مصنوعی مہنگائی یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں ۔77برسوں میں ہر حکومت وقت اپنے تئیں کیے جانے والے اقدامات کی روشنی میں متذکرہ مسائل ختم کرنے کے دعوے کرتی آئی ہےلیکن حقیقت میں یہ سارا کنٹرول بدعنوان عناصر کے ہاتھ میں رہا ہےاور اس نےہمیشہ حکومت کو ناکام بنایا۔وزیراعظم کو پیش کی جانے والی سب اچھا کی رپورٹوں کے مطابق ملک میںمہنگائی کی کمر ٹوٹ چکی ہے،حالانکہ پھل،سبزی،گوشت اور دودھ سمیت اشیائے ضروریہ کے نرخ آج بھی غریب اور عام آدمی کے بس سے باہر ہیں۔اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ افغانستان بہت سی کھانے پینے کی اشیا کا دارومدار پاکستان پر کرتا ہےجو قانونی یا غیر قانونی طریقوں سے بہر صورت وہاں پہنچ جاتی ہیں۔بد قسمتی سے اس تجارت میں اسمگلنگ کا عنصر زیادہ ہے،جس سے حکومتی تخمینے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ حکومت کواس بارے میں موثر مکینزم بنانا چاہئےاور ضروری سمجھا جائے تو قوانین میں ترمیم کرکے بھی قیمتیں کنٹرول میں رکھی جاسکتی ہیں۔

تازہ ترین