• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں۔ نفرت کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہو چکی ہے۔ محبت اور دوستی ہمارے ذاتی مفادات کی محتاج بن کر سکڑتی جا رہی ہے۔ نفرت بھی کاروبار ہے اور محبت بھی کاروبار بنتی جا رہی ہے۔ یہ کاروبار صرف ہمارے ارد گرد نہیں چل رہا بلکہ ایک بین الاقوامی رجحان بن چکا ہے۔ امریکا اور یورپ میں اسلاموفوبیا ایک انڈسٹری بن چکی ہے اور مسلم دنیا میں بھی مغرب دشمنی ایک سیاسی و مذہبی کاروبار ہے۔ امریکا اور یورپ نے آپس میں بھی لڑنا شروع کردیا ہے اور مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو تو قتل کر ہی رہے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو امریکا اور یورپ میں اسلام نافذ کرنے کا شوق رکھتے ہیں اور اس مقصد کیلئے خود کش حملوں کو بہترین راستہ سمجھتے ہیں۔ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کی سب سے بڑی طاقت وہ مسلمان ہیں جو بم دھماکوں کے ذریعہ بے گناہ اور غیر مسلح شہریوں کو قتل کرتے ہیں۔ مسلم ممالک میں انتہا پسندوں کی سب سے بڑی طاقت ٹیری جان جیسے امریکی پادری ہیں جو کبھی قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور کبھی اسلام کے خلاف کتابیں لکھ کر پیسے کماتے ہیں۔ امریکا اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ تازہ ترین واقعہ لندن میں ترک سفارتخانے کے باہر قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی کوشش ہے۔ یورپی ممالک میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں زور پکڑ رہی ہیں جو مسلمانوں سمیت ایشیا اور افریقہ سے آنے والوں کو اپنی سرزمین سے نکالنا چاہتی ہیں۔ یہ پہلو بڑا قابل غور ہے کہ ویٹی کن اور مصر کی الازہر یونیورسٹی کے درمیان بین المذاہب ڈائیلاگ کئی سال سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میںا ضافہ ہو رہا ہے۔ قرآن اور نبی کریم حضرت محمدﷺ کی گستاخی کے واقعات مسلسل جاری ہیں۔ عام تاثر یہ ہے کہ توہین اسلام کے یہ واقعات گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا میں القاعدہ کے حملوں کا ردعمل ہیں۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ مغرب میں توہین قرآن اور توہین رسالتؐ کی تاریخ بہت بڑی پرانی ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے استاد پروفیسر عبدالرحیم قدوائی نے انگریزی ادب میں رسول اللہؐ کی تصویر کشی کا ایک تجزیاتی مطالعہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ 1649ء میں الیگزنڈر راس نے قرآن مجید کا پہلا انگریزی ترجمہ کیا اور اس ترجمے میں بہت سا جھوٹ شامل کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ پھر فرانسیسی ادیب والٹیئراور شیکسپیئر بھی اپنی تحریروں میں توہین رسالتؐ کا ارتکاب کرتے رہے لیکن جرمن ادیب گوئٹے اور برطانوی ادیب کارلائل نے اسلام اور نبی کریمؐ کے بارے میں جھوٹے پروپیگنڈے کو مسترد کردیا۔ کارلائل نے نبی کریمؐ کو ایک رول ماڈل قرار دیا جسکے بعد امریکی سائنس دان مائیکل ہارٹ اور جرمن تاریخ دان این میری شمل سے لے کر برطانوی مصنفہ کیرن آرمسٹرانگ تک کئی مغربی ادیبوں نے نبی آخر الزمانؐ کی سچائی اور عظمت کوتسلیم کیا۔ پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کے علاوہ ایک سعودی عالم دین پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز بن ابراہیم العمری نے ’’رسول اللہ و خاتم النبین‘‘ کے نام سے اپنی کتاب میں برنارڈ شا سمیت کئی مغربی مصنفین کا ذکر کیا ہے جنہوں نے نبی کریمؐ کو عالمی امن کا سفیر قرار دیا۔ ڈاکٹر العمری نے بہت تحقیق کے ساتھ مسیحیوں اور یہودیوں کی مذہبی کتب میں سے نبی کریمؐ کی حقانیت کے ثبوت پیش کئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے آخری نبیؐ کئی صدیوںسے فیک نیوز کا نشانہ ہیں۔

آج بھی جب امریکا میں رابرٹ سپنسر اسلام کے خلاف کوئی کتاب لکھتا ہے یا ڈچ سیاستدان گریٹ ویلڈر مسلمانوں کے خلاف فلم ریلیز کرتا ہے تو ہم سڑکوں پر آ کر احتجاج شروع کردیتے ہیں۔ پرامن احتجاج ضرور کریں لیکن جب مغرب میں قرآن یا اسلام کی توہین ہوتی ہے تو ہمیں کارلائل اور مائیکل ہارٹ جیسے مغربی مفکرین کا ذکر کرنا چاہیے جنہوں نے پیغمبر اسلامؐ کے خلاف مغربی مصنفین کی دشنام طرازیوں کو مسترد کیا۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کا علاج علم و تحقیق میں تلاش کیا جائے تو زیادہ موثر ثابت ہوسکتا ہے ۔ نبی کریمؐ کی سچائی کا اعتراف صرف مغرب میں نہیںبلکہ مشرق میں کئی ہندو اور سکھ مصنفین نےبھی کیا ہے۔ سنسکرت کے ممتاز عالم اور الٰہ آباد یونیورسٹی کے پروفیسر پنڈت ویدپرکاش اپادھیا نے ایک کتاب ’’کلکی اوتار اور حضرت محمدؐ ‘‘کے نام سے لکھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب میں پیغمبرؐ اسلام کا ذکر کلکی اوتار کے نام سے ملتا ہے جس کا مطلب آخری رسولؐ ہے۔ ہندو انتہا پسند اکثر قرآن اور اسلام کے بارے میں یاوہ گوئی سے کام لیتے ہیں لیکن بہت کم مسلمان ایسے ہیں جو اپنے دین کے حق میں ہندو مصنفین کی گواہی پیشکش کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کا مقدمہ بہت مضبوط ہے لیکن مقدمہ لڑنے کیلئے تشدد کا راستہ درست نہیں۔ تشدد کا راستہ دشمنان اسلام کے مقاصد پورےکرتا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔ سچ کا ساتھ دینا مشکل کام ہے لیکن آخری فتح ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو اپنے کردار سے اپنے دین کی سچائی ثابت کرنی چاہیے۔ قرآن ناپ تول میں انصاف کا حکم دیتا ہے۔ کیا ہم ماہ رمضان میں ایک دوسرے کے ساتھ ناپ تول میں انصاف کرتے ہیں؟اسلام ہمیں جھوٹ بولنے سے روکتا ہے، ایک دوسرے کا مذاق اڑانے سے روکتاہے، بدکلامی سے روکتا ہے، ظلم اور ناانصافی سے روکتا ہے، عہد توڑنے سے روکتا ہے۔ کیا ہم ان تمام اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں؟ جب ہم ایک دوسرے کیساتھ ہی انصاف نہیں کرتے تو اپنے دین کا دفاع کیسے کریں گے؟ سب سے پہلے تو ہمیں آپس میںنفرتیں کم کرنی ہوں گی اس کے بعد ہم اس نفرت کا مقابلہ کرسکیں گے جو کسی بھی وقت دنیا کو ایک نئی عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ہم اسلام کو دین حق کہتے ہیں لیکن اس دین کے پیروکار حق کا کتنا ساتھ دیتے ہیں؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دین کے خلاف جھوٹ نہ بولا جائے اور ہمارے خلاف نفرت نہ پھیلائی جائے تو ہمیں اپنے کردار میں وہ خصوصیات پیدا کرنی چاہئیں کہ ہمارے دشمن کم از کم یہ اعتراف تو ضرور کریں کہ آج کے مسلمان واقعی اس نبیؐ کے پیروکار ہیں جو صادق اور امین کہلاتے تھے۔ جو مسلمان کم از کم رمضان میں صداقت کے راستے پر نہیںچلتا اور امانت میں خیانت کرتا ہے کیا وہ مسلمان کہلانے کے لائق ہے؟ مغرب میں کرسمس کے قریب آنے پر مہنگائی کم ہو جاتی ہے اور ہم رمضان میں ایک دوسرے کو لوٹتے ہیں۔ جب ہم رمضان میں ایک دوسرے کو لوٹنا بند کر دیں گے تو مغرب میں توہین قرآن اور توہین رسالت بند ہو جائےگی۔

تازہ ترین