وزیرِ مملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ امنِ عامہ کے معاملے پر نیشنل ایکشن پلان ہوگا تو وزارتِ داخلہ پورے ملک کو دیکھے گی، قومی معاملات پر وفاقی وزارتِ داخلہ سے بالکل جواب لینا چاہیے۔
چیئرمین فیصل رحمٰن کی زیرِ صدارت سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا۔
کمیٹی ممبران نے صوبائی سیکیورٹی اور دہشت گردی پر داخلہ کمیٹی سے جائزہ لینے کا مطالبہ کیا۔
سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ کوئٹہ میں ہماری سیکیورٹی واپس لی گئی ہے، امن و عامہ کا مسئلہ خراب ہے۔
سینیٹر سیف اللّٰہ ابڑو نے سوال اٹھایا کہ مصطفیٰ عامر کیس کی طرح کے کیسز کو داخلہ کمیٹی کیوں نہ دیکھے؟
عرفان صدیقی نے کہا کہ صوبوں کے معاملات صوبوں کو دیکھنے چاہئیں کیونکہ قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں۔
وزیرِمملکت داخلہ طلال چوہدری نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ صوبوں کے معاملے پر کمیٹی کی مداخلت سے سیاسی مسائل ہوں گے، صوبوں میں ہونے والے معاملات کی باریکیوں میں نہیں جانا چاہیے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ وزارتِ داخلہ کا اسکوپ پورے ملک تک ہے تبھی ایک وزیرِ داخلہ اور ایک مشیرِ داخلہ ہے، وزارت داخلہ کا اسکوپ اگر محدود کیا تو یہ وزارت تعلیم کی طرح رہ جائے گی۔
سینیٹرثمینہ زہری اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وزارتِ داخلہ کو ملکی سیکیورٹی پر جائزہ لینے میں کوئی قباحت ہونی نہیں چاہیے۔
اس پر طلال چوہدری نے کہا کہ امن و عامہ کے معاملے پر نیشنل ایکشن پلان ہوگا تو وزارتِ داخلہ پورے ملک کو دیکھے گی۔
فیصل سلیم رحمٰن نے کہا کہ اکوڑہ خٹک جیسے معاملات کو ہم کمیٹی میں ضرور اٹھائیں گے، میرے علاقے کا ایک بندہ بھی جان سے جائے گا تو میں سوال تو پوچھوں گا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ دہشت گردی کوئی صوبائی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے، روزانہ کےجرائم پر صوبائی معاملات میں مداخلت سے سیاسی مسائل بڑھیں گے۔
سیف اللّٰہ ابڑو نے سوال پوچھا کہ کرم معاملے پر وزیرِ داخلہ پشاور گئے تو سندھ کے معاملات پر کیوں نہیں جاسکتے؟
اس پر وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا کہ قومی معاملات پر وفاقی وزارتِ داخلہ سے بالکل جواب لینا چاہیے۔