• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میرا گزشتہ کالم اس بات پر ختم ہوا تھا کہ لاہور میں پریس کانفرنس کے بعد چائے کے وقت میرے ایک سوال کے جواب میں واپڈا کے اس وقت کے سیکریٹری نے کہا کہ ’’گریٹر تھل کینال‘‘ کی اسکیم وفاقی حکومت نے نہیں پنجاب حکومت نے بنائی ہے اور یہ اسکیم ابھی تک پنجاب حکومت کے پاس ہے، وفاقی حکومت کو نہیں بھیجی گئی ہے۔ اس وقت میرا تعلق انگریزی اخبار سے تھا لہٰذا کراچی واپس آنے پر میں نے یہ خبر اخبار کو بھیجی جہاں یہ خبر سپر لیڈ کے طور پر شائع کی گئی۔ بعد میں سندھ کے محکمہ آبپاشی کے اس وقت کے سیکریٹری نے اس ایشو پر ایک خط قانون اور انصاف کی وفاقی وزارت کو ارسال کیا جس میں ’’گریٹر تھل کینال‘‘ کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔ یہ نوٹیفکیشن وفاقی حکومت کو بھی بھیجا گیا اورسندھ حکومت کو بھی مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج تک نہ وفاقی حکومت نے نوٹس لیا اور نہ سندھ حکومت نے یہ ایشو وفاقی حکومت کے سامنے اٹھایا۔ اطلاعات کے مطابق اس اسکیم پر کام ہورہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ وفاقی حکومت یہ فیصلہ کرے کہ کینالوں اور دریا پر پہلا حق کس صوبے کا ہے‘ یہاں میں اس بات کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کینالوں پر پہلا حق کس کا ہوتا ہے‘ مجھے کچھ علماء نے بتایا کہ ایک روایت کے مطابق مدینے پاک کے نزدیک ایک نہر بہتی تھی‘ ایک بار اس نہر کے پانی پر ایک یہودی آباد کار اور ایک مسلمان آبادکار کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا‘ یہودی آباد کارنہر کے اوپر والے حصے سے پانی لیتا تھا جبکہ مسلمان آباد کار نہر کے آخری کونے سے پانی حاصل کرتے تھے‘ یہ ہمارے پیغمبر حضور اکرم کا دور تھا‘ یہ تنازع اتنا بڑھا کہ دونوں مدینے پاک میں نبی اکرم کے حضور پیش ہوئے‘ یہ کیس حضور اکرم کے سامنے رکھا‘ یہودی آباد کار کا کہنا تھا کہ مسلمان آباد کار اسے اپنی ضرورت کے مطابق پانی حاصل نہیں کرنے دیتا جبکہ مسلمان آبادکار کا موقف تھا کہ وہ نہر کے نچلے حصے سے پانی حاصل کرتا ہے جبکہ یہودی آباد کار اپنی مرضی سے اتنی وافر مقدار میں پانی نکالتا ہے کہ اس کے حصے میں بہت کم پانی آتا ہے جس سے اس کی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ یہ سب کچھ سننے کے بعد حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ وہ سب سے پہلے دونوں علاقوں کا معائنہ کریں گے اس کے بعد اپنا فیصلہ سنائیں گے لہٰذا دونوں آباد کار حضور اکرم کو اپنے اپنے علاقے میں لے گئے اور حضور اکرم نے دونوں علاقوں کا معائنہ کرنے کے بعد واپس آکر اپنا فیصلہ سنایا کہ نہر یا دریا کے پانی پر پہلا حق آخری حصے والے کا ہے‘ اس کے بعد جب حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ تھے تو ایک دن یہ یہودی آباد کار حضرت عمر فاروق ؓکے پاس آیا اور فریاد کی کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے کیونکہ نہر کا سارا پانی مسلمان آباد گار لے جا رہا ہے اور اس کے پاس اتنا پانی نہیں بچتا کہ وہ اپنی ضرورتیں پوری کر سکے۔ یہ یہودی آباد کار جب حضرت عمر فاروق ؓکو اپنی فریاد سنا رہا تھا تو نزدیک دو‘ تین صحابی کھڑے تھے جو یہ سب کچھ سن رہے تھے‘ یہ فریاد سن کر وہ اصحاب تیز قدم اٹھا کر حضرت عمر فاروق ؓکے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ ایشو حضور اکرم کے سامنے بھی پیش کیا گیا تھا تو حضرت عمر فاروق نے پوچھا کہ حضور اکرمﷺ نے کیا فیصلہ دیا۔ جواب میں ان صحابیوں نے فرمایا کہ حضور اکرم کا یہ فیصلہ تھا کہ دریا یا نہر کے پانی پر پہلا حق نچلے حصے والوں کا ہوتا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمر فاروق ؓنے میان سے تلوار نکالی اور یہودی آبادکار کے گلے پر دے ماری اور یہودی آباد کار کی گردن کٹ کے دور جا گری اور حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ جو شخص حضور اکرم کا فیصلہ نہیں مانتا اس کے بارے میں میرا یہ فیصلہ یہ ہے۔ ماشاء اللہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے تو کیا ایسے ملک میں ایک صوبہ اگر بڑا اور ہر لحاظ سے دوسرے صوبوں پر غالب ہے تو کیا وہ حضور اکرم کا فیصلہ نہیں مانے گا؟ میں اس مرحلے پر اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ اکثر ملکوں میں دریاؤں اور نہروں کے پانی کی تقسیم اسی اصول کے تحت کی جارہی ہے تو پھر سندھ کے ساتھ یہ ناانصافی کیوں؟

اس مرحلے پر میں دریائے سندھ کی صوبہ سندھ کیلئے اہمیت کا بھی ذکر کرنا چاہوں گاکہ سندھ کی معیشت کا دار و مدار زیادہ تر دریائے سندھ پر ہے اور ٹیل پر ہونے کی وجہ سے سندھ کا یہ حق بھی کہ اس کو اس کے حصے کا پانی ملے ۔لازم ہے کہ وفاق فوری طور پر اس معاملے کو دیکھے اور اسے منصفانہ طریقے سے حل کرئے تاکہ نہ کسی کی حق تلفی ہو اور نہ ہی آپس میں کدورتیں پیدا ہونے پائیں، اس معاملے کو سلجھانے میں دیر نہ کی جائے۔

تازہ ترین