منیر نیازی نے کہا تھا
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
ریل گاڑی وقت کی طرح ہے۔آگے بڑھتی رہتی ہے ، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتی ۔یہ زندگی جیسی ہے ، نئے مسافر آتے ہیں ، پرانےچلے جاتےہیں ، یہ چلتی رہتی ہے ۔ اپنے ڈبوں میں مسافروں کی زندگیوں، خوابوں اور تاریخ کو سمیٹتے ہوئے ۔ ہر ڈبہ جیسے کسی کہانی کی بازگشت ہو، جو پٹڑیوں کی تال پر گونجتی ہے۔ایک چھوٹی دنیا بڑی دنیا سے گزرتی رہتی ہے لیکن بعض اوقات، یہ رفتار اچانک تھم جاتی ہے، آگ کی لپیٹ میں آ جاتی ہے اور ملبے سے اٹھنے والی چیخیں وقت کی ہوا میں معلق رہ جاتی ہیں۔ ایسا ہی ایک المناک واقعہ 27 فروری 2002 کو پیش آیا، جب گجرات میں گودھرا کے قریب سابرمتی ایکسپریس کو آگ لگا دی گئی۔ درجنوں بے گناہ جانیں جھلس کر راکھ ہو گئیںاور اس بھیانک واقعے نے گجرات میں ایسے خوفناک فسادات کو جنم دیا جن میں ہزاروں مسلمان شہید کر دیے گئے۔ یوں ایک جلتی ہوئی ٹرین پورے خطے میں نفرت اور خونریزی کا پیش خیمہ بن گئی۔
ٹرین ایک وعدہ بھی ہوتی ہے۔حرکت، روابط اور ماضی و مستقبل کے درمیان ایک نہ ٹوٹنے والے سفر کا۔ سمجھوتہ ایکسپریس بھی محض ایک ٹرین نہیں تھی بلکہ دو قوموں کے درمیان رابطے کا ایک نازک سا پل تھی۔ لاہور سے دہلی تک جاتی اور آتی تھی مگر 18فروری 2007 ءکی رات، پانی پت کے قریب یہ پل راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔ ایک سازش کے تحت اس کے ڈبوں میں آگ لگا دی گئی، دروازے باہر سے بند کر دیے گئے، اور درجنوں مسافروں کو زندہ جلا دیا گیا۔اس سفاک واردات کی آخری افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارتی عدالتوں نے ان مجرموں کو رہا کر دیا جنہوں نے اس سفاکیت کو انجام دیا تھا۔ اس حملے کا پس منظر 11 جولائی 2006 کے ممبئی ٹرین بم دھماکوں سے جوڑا گیا، جس میں 209 افراد ہلاک ہوئے تھے اور جس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا تھا۔
مجھے بھارت میں ٹرینوں میں دہشت گردی کے واقعات اس وقت یاد آنا شروع ہوئےجب جعفر ایکسپرس میں سوار 425مسافروں کو یرغمال بنانے کی خبر سنی ۔ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کا ملوث ہوناکوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔دنیا جانتی ہے ۔کلبھوشن کے اعترافات اس کا برہنہ ثبوت ہیں ۔پاکستان اس سلسلے میں کئی ڈوزئیر اقوامِ متحدہ کو پیش کرچکا ہے ۔
دنیا میں ٹرینوں پر دہشت گردی کے حملوں کی اپنی ایک تاریخ ہے ۔میں 1947ءمیں انڈیا سے آنے والی لاشوں بھری ٹرینوں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔صرف ماضی قریب پر نظر ڈالتا ہوں ۔11 مارچ 2004 ءکو میڈرڈ میں مسافر ٹرینوں میںبم دھماکوں میں 193 افراد ہلاک ہوئے۔7جولائی 2005ءکو لندن کی زیر زمین ٹرین کو نشانہ بنایا گیا جس میں 52افراد ہلاک ہوئے۔29مارچ 2010 کوماسکو ٹرین پر حملہ کیا گیا، دھماکوں میں40 افراد ہلاک ہوئے۔1 مارچ، 2014 ءکو،چین کے شہرکنمنگ میں ٹرین پر حملہ ہوا جس میں 31 افراد ہلاک ہوئے۔ 3 اپریل 2017 کو سینٹ پیٹرزبرگ میں میٹرو ٹرین میں دھماکہ کیا گیاجس میں 15 افراد ہلاک ہوئے۔
ٹرین کا مطلب حرکت میں ایک پناہ گاہ ہے، ایک ایسی جگہ جہاں تھکا ہوا مسافر پٹریوں پر اسٹیل کی خاموشی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ سفر محفوظ آمد پر ختم ہوگا۔ٹرین صدیوں سے تحریک، اتحاد اور تعلق کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔ٹرین منزل تک پہنچاتی ہے ۔ بچھڑوں کو ملاتی ہے ۔ اس لئے علامتی طور پر یہ سمجھا جاسکتا ہے ٹرین پر حملہ تعلق پر حملہ ہوتاہے ۔ملانے کے عمل کے خلاف کارروائی ہوتی ہے ۔
بے شک حکومت نے ایک کامیاب آپریشن سے 33دہشت گرد ہلاک کر دئیے ۔ تین سو کے قریب مسافروں کو رہا کرالیا مگر ا س کی پوری تفصیلات ابھی عوام تک نہیں پہنچ سکیں۔ میرے خیال میں دہشت گردی کے واقعات کی باریک سے باریک تفصیل بھی لوگوں کو بتائی جانی چاہئے تا کہ انہیں اپنے دشمنوں کی وحشت خیزی کا اندازہ ہو۔ وہ ملک دشمن عناصر کا بھیانک چہرہ پوری طرح دیکھیں اور دل و جاں سے اپنی فورسز کا ساتھ دیں ۔
بلوچستان میں دہشت گردی روکنے کیلئےبے شک حکومت کو ہر قیمت پراپنی رٹ قائم کرنا ہوگی ۔انتہائی سختی کے ساتھ دہشت گرد وں کو اپنے انجام تک پہنچانا ہوگا مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ساتھ ساتھ اس جنگ میں دلوں کو جیتنے کی بھی ضرورت ہے ، ہمیںزخموں پر مرہم رکھنا ہوگا،اس خطے میں روشنی بھری محبت اور خوشبو بھری اخوت کی ریل گاڑیاں چلانی ہونگی۔ پائیدار اور مستقل امن محض فوجی کارروائیوں سےممکن نہیں ۔اس کیلئے انصاف، مساوات اور ترقی کی پُر سعادت روشنی بھی چاہئے۔ جب غربت بھری جہالت کا خاتمہ ہوگا، جب اچھی تعلیم ہر دہلیز تک پہنچے گی، جب روزگار کی شاہراہیں کھلیں گی، تب ہی نفرت کی تنگ و تیرہ گلیوں میں امید کے چراغ جلیں گے۔ دہشت گردی کا مقابلہ صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ محبت، مکالمے اوروسائل کی منصفانہ تقسیم سے کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کو وہی عزت، سہولتیں اور مواقع دیے جائیں جو کسی بھی خوشحال خطے کا حق ہوتے ہیں، تاکہ محرومی کا اندھیرا خود بخود چھٹ جائے اور شدت پسندی کی زمین بنجر ہو جائے۔ یہ جنگ صرف سرحدوں پر نہیں، ذہنوں میں بھی لڑی جانی چاہیے، کیونکہ جب خواب محفوظ ہو جائیں گے، تو ہاتھ ہتھیار نہیں، کتابیں اور اوزار تھامیں گے۔