• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جعفر ایکسپریس کے سانحے نے ایک بار پھر پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، بلکہ ایک طویل سلسلے کی کڑی ہے جس میں بے گناہ پاکستانیوں کو وحشیانہ طریقے سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ جعفر ایکسپریس کے سانحے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا ہے۔ اس بہیمانہ کارروائی میں بیگناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، جس پر تمام پاکستانی، قطع نظر سیاسی، مذہبی یا لسانی وابستگی کے، دکھی اور رنجیدہ ہیں۔ ہر محب وطن شہری اس بزدلانہ حملے کی مذمت کر رہا ہے اور سوال اٹھا رہا ہے کہ آخر یہ خونریزی کب رکے گی؟ دہشت گردی کی اس لہر کے پیچھے محرکات کیا ہیں، اور اس کا حل کیسے ممکن ہے؟بلوچستان جو پاکستان کے کل رقبے کا 44 فیصد بنتا ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود دہائیوں سے بدامنی کا شکار ہے۔ یہاں کی بدامنی میں جہاں مقامی عوامل کارفرما ہیں، وہیں عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کی مداخلت بھی ایک کھلا راز ہے جو اپنےمفادات کیلئے معصوم بلوچوں کو بہکا رہے ہیں۔بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی بلوچستان میں سرگرمیوں کے بارے میں کئی شواہد موجود ہیں۔ چند خود ساختہ’’بلوچ رہنما‘‘جو بیرون ملک مقیم ہیں، مسلسل بھارتی فنڈنگ اور حمایت حاصل کر رہے ہیں تاکہ صوبے میں امن قائم نہ ہونے پائے۔ بھارتی مداخلت کا مقصد بلوچستان کو عدم استحکام کا شکار رکھنا ہے تاکہ پاکستان کی ترقی، خاص طور پر گوادر پورٹ جیسے میگا پروجیکٹس کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ سرحد پار سے دہشت گردوں کی دراندازی، اسلحے کی اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت نے صوبے کے امن و امان کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال نے بھی بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی راہیں ہموار کی ہیں، کیونکہ مختلف گروہ یہاں اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔بلوچستان میں جاری بدامنی کی ایک بڑی وجہ وہاں کے عوام کی محرومیاں بھی ہیں۔ دہائیوں سے صوبے کے عوام یہ شکوہ کرتے آئے ہیں کہ ان کے وسائل سے دوسرے علاقے فائدہ اٹھا رہے ہیں، جبکہ خود بلوچستان بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ تعلیم، صحت، روزگار اور انفراسٹرکچر کے مسائل نے بلوچ عوام میں احساسِ محرومی کو جنم دیا ہے، جس کا فائدہ پاکستان مخالف قوتیں اٹھا رہی ہیں۔ مزید برآں، بلوچستان میں گمشدگیوں کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ اس مسئلے کو ایک مخصوص بیانیے کے تحت پروپیگنڈے کیلئےبھی استعمال کیا جا رہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سیکورٹی فورسز قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرتی ہیں۔ بلوچستان میں قیام امن کیلئےضروری ہے کہ ہم روایتی طریقوں سے ہٹ کر جدید سیکورٹی حکمت عملی اپنائیں۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔ ہمیں اپنے انٹیلی جنس نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔جدید ڈرون ٹیکنالوجی، نائٹ وژن سے لیس اسلحہ، بلٹ پروف گاڑیاں اور سیٹلائٹ سرویلنس جیسے اقدامات سیکورٹی فورسز کی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔ صوبے میں دہشتگردوں کی طرف سے سیکورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کےخلاف مسلسل حملوں کو روکنے کیلئے تمام سرکاری اہلکاروں کو ہروقت مسلح رہنے کا حکم جاری ہونا چاہیے۔ بلوچستان میں دیرپا امن کیلئے وہاں ایسی قیادت کو آگے لانا ہوگا جس پر عوام اعتماد کریں اور جو ریاست کے ساتھ مخلص ہو۔ ماضی میں ایسی حکومتیں مسلط کی گئیں جو عوامی حمایت سے محروم تھیں، جسکی وجہ سے صوبے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ بلوچ عوام کو یقین دلانا ہوگا کہ پاکستان ان کا ہے، اور انکے تمام جائز مطالبات پورے کیے جائیں گے۔ سیاسی، سماجی اور اقتصادی سطح پر بلوچستان کے عوام کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کیلئے ایک مؤثر پالیسی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائزیشن نے دشمن قوتوں کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھیں۔ بلوچستان سمیت تمام صوبوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا ہوگا اور اس تاثر کو ختم کرنا ہو گا کہ کسی ایک صوبے کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے۔ بلوچستان میں وسائل کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانے کیلئے گوادر پورٹ، ریکوڈک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں میں مقامی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے تاکہ وہ خود کو اس ترقی کا حصہ محسوس کریں۔ تمام صوبوں کے درمیان وسائل کی منصفانہ تقسیم، بلوچستان کے عوام کے حقیقی نمائندوں کو قیادت کا موقع دینا اور جدید سیکورٹی اقدامات اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جعفر ایکسپریس جیسے سانحات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں اور ایک مربوط قومی پالیسی ترتیب دیں۔ بلوچستان میں امن کے قیام کیلئے سیکورٹی، سیاست اور معیشت تینوں محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں پائیدار امن صرف طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ سیاسی استحکام، اقتصادی ترقی اور سماجی انصاف کی فراہمی سے ہی ممکن ہے۔ بلوچستان کا استحکام صرف بلوچستان کیلئے نہیں، بلکہ پورے پاکستان کیلئے ناگزیر ہے۔ اگر ہم اس صوبے میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو یہ نہ صرف ملک کے اقتصادی و سیاسی استحکام کی ضمانت ہوگا بلکہ دشمن قوتوں کے عزائم کو بھی ہمیشہ کیلئے خاک میں ملا دے گا۔ بلوچستان پاکستان کی ترقی کی کنجی ہے۔ اگر اس صوبے میں امن اور استحکام قائم ہوتا ہے تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کیلئے ایک مثبت پیش رفت ہوگی۔ یہی وقت ہے کہ ہم ایک ایسے مستقبل کی بنیاد رکھیں جہاں ہر بلوچ، ہر پاکستانی خود کو محفوظ، خوشحال اور مساوی حقوق کا حامل محسوس کرے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچستان کے عوام کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کیے بغیر امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

( صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین