• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بانی پی-ٹی-آئی کے بارے میں ایک مضبوط تاثر قائم ہو چکا ہے کہ بیرونی ایجنڈے کے تحت ریاست دشمنی ان کی سیاست کا پہلا مقصد ہے وہ اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے اپنے قریب ترین ساتھی کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے اور وہ پارٹی کے اس لیڈر یا کارکن کو حقیقی دوست مانتے ہیں جو ان کا ہر حکم بجا لائے اور ریاست دشمنی پر یقین رکھتا ہواور تحریک انصاف کا کوئی ایک لیڈر ایسا نہیں جو عمران خان کی ریاست دشمن پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے اپنا حصہ نہ ڈالتا ہو۔اپنے دور حکومت میںبیرونی ایجنڈے کے تحت 42ہزار دہشتگردوں کو پاکستان میں آباد کرنے والے عمران خان کا اب یہ مقصد ہے کہ ان دہشتگردوں کو پاکستانی شہریت دی جائے تاکہ ان کی عسکری طاقت میں اضافہ ہو اور وہ پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے سے مٹانے میں کامیاب ہو سکیں، وہ کئی بار اپنی خواہش کا برملا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان تین ٹکڑوں میں بٹے گا۔شاید عمران خان پاکستان کے تیسرے ٹکڑے کی آس لگائے ’’را‘‘ کے’’خصوصی ایلچی‘‘ کے طور پر بلوچستان کے حالات سے خوش ہوں گے جس کی عکاسی عمران خان نے مذمت نہیں کی بلکہ پارٹی کو جعفر ایکسپریس کے واقعہ پر کسی قسم کی مذمت کرنے یا اسے کسی بھی انداز میں زیر بحث لانے سے منع کر دیا۔بلوچستان میں شورش انڈیا کی برسوں کی سازشوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے جس کا باقاعدہ آغاز بی-ایل-اے کے دہشتگردوں کی جانب سے جعفر ایکسپریس کے اغواء اور مسافروں کے قتل عام سے ہوا جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور ٹی-ٹی-پی کی معاونت تھی۔اگرچہ بلوچستان میں شورش برپا کرنے کی کامیاب ابتداء تو اسی وقت ہو گئی تھی جب’’را‘‘ نے ماہرنگ لانگہو کو بلوچستان میں پلانٹ کیا تھا جس نے ہر سطح پر پاکستان دشمنی میں اپنی ’’صلاحیتوں‘‘ کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو اس’’منصب‘‘ کا اہل ثابت کیا۔ایک طرف تو حکومت پاکستان ملک سے دہشتگردی کی روک تھام اور ملک میں امن قائم کرنے کی پالیسی کے تحت افغان مہاجرین کے بھیس میں پورے ملک میں پھیلے ہوئے دہشتگردوں کو افغانستان واپس بھیجنے کی کوششوں میں ہے اور فوج ہر محاذ پر دہشتگردوں کے خلاف برسرپیکار ہے دوسری طرف تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے پارٹی قائد کی ترجمانی کرتے ہوئے ریاست کی اس پالیسی کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان میں موجود تمام افغان باشندوں کو پاکستانی شہریت دینے کا مطالبہ کر دیا ہے جو اس مرحلے پر جب پاکستان دہشتگردی کے خلاف برسرپیکار، سمجھ سے بالا تر ہے۔ملک میں دہشتگردی کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں انڈین دہشتگردتنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی-ایل-اے) کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیچھے اندرونی اور بیرونی قوتیں کھلے عام ملوث پائی گئی ہیں جس کے سیکڑوں نہیں، ہزاروں ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔اس ضمن میں حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ عسکری قیادت کو بھی دعوت دی گئی لیکن تحریک انصاف نے اس انتہائی اہم قومی کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا جو بالفاظ دیگر انہوں پاکستان میں دہشتگردی کی حمایت کی ہے۔کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں نے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے پارٹی پالیسی کے مطابق مشورے دئیے جبکہ عسکری قیادت نے دہشتگردی کے حوالے سے شرکا کو بریفنگ دی۔ آرمی چیف نے قرار دیا کہ ملکی سلامتی سے بڑھ کر کوئی ایجنڈا نہیں ہونا چاہئےے اور ریاست کو سخت گیر ہونا چاہئے، نرم نہیں۔ کب تک گورننس کا خلاء فوج اور شہداء کے خون سے پر کیا جاتا رہے گا؟ اجلاس کے اختتام پر پی-ٹی-آئی اور اس کی اتحادی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے بائیکاٹ کی مذمت کی لیکن عمران خان نے اپنے ایک پیغام میں بائیکاٹ کے فیصلے کی حمایت اور تعریف کی۔ادھر جنگ، جیو اور نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن جناب انصار عباسی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ریاست اور حساس ریاستی اداروں کی اعلیٰ شخصیات کے خلاف عالمی سطح پر زہریلی مہم والے تینوں اکاؤنٹس کا براہ راست تعلق عمران خان کے ساتھ ہے اور یہ تینوں اکاؤنٹس عمران خان کے آفیشل اکاؤنٹس ہیں جو بیرون ملک سے چلائے جاتے تھے اور جنہیں جبران الیاس، اظہر مشوانی اور علی ملک ہینڈل کرتے تھے۔ طریقۂ واردات یہ تھا کہ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان جب عمران خان سے ملاقات کرنے جیل جاتیں تو عمران خان انہیں ریاست اور فوج مخالف پروپیگنڈا X مٹیرئل کی تحریر مہیا کرتے جو علیمہ خان ان تینوں وی لاگرز کو فارورڈ کر دیتی تھیں۔حکومت کی جانب سے آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں قائم کی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم پہلے سے ہی ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف تحقیقات میں مصروف ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شواہد کی موجودگی میں عمران خان اور ان کی ہمشیرہ کے خلاف کیا کارروائی ہو گی؟

تازہ ترین