• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کا ڈیلٹا پاکستان کے جنوب میں ایک نہایت اہم ماحولیاتی اور معاشی نظام ہے جو دریائے سندھ کے پانی سے جُڑا ہوا ہے۔ صدیوں سے یہ علاقہ نہ صرف حیاتیاتی تنوع کا مرکز رہا ہے بلکہ لاکھوں افراد کے معاش کا بھی ذریعہ ہے۔ تاہم، گزشتہ چند دہائیوں میں پانی کی شدید قلت نے سندھ کے ڈیلٹا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ قلت قدرتی عوامل کے ساتھ ساتھ انسانی مداخلت، ڈیموں کی تعمیر، پانی کی غیر منصفانہ تقسیم اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ اس بحران نے نہ صرف ماحولیات پر گہرے اثرات ڈالے ہیں بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔سندھ کے ڈیلٹا کا وجود بنیادی طور پر دریائے سندھ پر منحصر ہے، جو کہ ہمالیہ سے نکل کر پاکستان کے مختلف علاقوں سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں گرتا ہے۔ ڈیلٹا کے علاقے میں میٹھے پانی اور سمندری پانی کے ملاپ سے ایک خاص ماحولیاتی نظام تشکیل پاتا ہے، جس میں مینگرووز کے جنگلات، مختلف اقسام کی مچھلیاں، پرندے، اور دیگر آبی حیات پروان چڑھتی ہے۔ لیکن جب دریا میں پانی کی مقدار کم ہو جاتی ہے تو سمندری پانی اندرونی علاقوں میں گھس آتا ہے، جس سے زمین کی زرخیزی متاثر ہوتی ہے۔ زراعت، ماہی گیری اور دیگر معاشی سرگرمیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، قدرتی ڈیلٹا کو زندہ رکھنے کیلئے سالانہ تقریباً 10ملین ایکڑ فٹ پانی دریا سے سمندر میں گرنا ضروری ہے، مگر بدقسمتی سے 1990ء کے بعد سے یہ مقدار مستقل کم ہو رہی ہے۔ بعض برسوں میں تو یہ مقدار 1ملین ایکڑ فٹ سے بھی کم رہی، جس کے نتیجے میں سمندر نے سندھ کے اندرونی علاقوں میں تقریباً 2.5ملین ایکڑزمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ٹھٹھہ، سجاول، اور بدین کے علاقے خاص طور پر اس تباہی کا شکار ہوئے ہیں، جہاں پہلے زرخیز زمینیں تھیں، اب وہاں سمندری پانی کا راج ہے۔ سندھ کے ڈیلٹا کی تباہی کا سب سے بڑا سبب اوپر کے علاقوں میں پانی کا روک لیا جانا ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بڑے ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر نے سندھ کے حصے کا پانی کم کر دیا ہے۔

ایک وقت تھا جب سندھ کے ساحلی علاقوں میں600000 ہیکٹرز تک مینگرووز کے جنگلات پھیلے ہوئے تھے، مگر اب یہ صرف 80000ہیکٹر تک محدود ہو گئے ہیں۔ مینگرووز نہ صرف آبی حیات کیلئے ضروری ہیں بلکہ یہ سمندری طوفانوں اور سونامی جیسے قدرتی خطرات سے بھی ساحلی علاقوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ جب یہ جنگلات ختم ہوتے ہیں، تو مقامی آبادی کیلئے مشکلات بڑھ جاتی ہیں، کیونکہ ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ماہی گیری ہے جو مینگرووز کے ماحول پر منحصر ہے۔ ماہی گیری کی صنعت بھی پانی کی کمی کی وجہ سے زوال کا شکار ہے۔ دریائے سندھ کا میٹھا پانی جب سمندر میں گرتا تھا، تو یہ ایک قدرتی نظام کے تحت کئی اقسام کی مچھلیوں کی افزائش میں مدد دیتا تھا۔ مگر اب چونکہ سمندری پانی زیادہ اندر آ چکا ہے، تو ان مچھلیوں کی نسلیں ختم ہونے کے قریب ہیں۔ ٹھٹھہ اور بدین کے ماہی گیروں کے مطابق، وہ پہلے روزانہ 20 سے 30 کلو مچھلی پکڑتے تھے، مگر اب یہ مقدار 5 سے 10 کلوتک رہ گئی ہے، جس سے ان کی آمدنی میں شدید کمی آئی ہے۔اس کے علاوہ، سندھ کے ڈیلٹا میں پانی کی کمی نے زرعی پیداوار پر بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ سندھ کے ساحلی علاقوں میں چاول، گنا، اور دیگر اجناس اُگائی جاتی تھیں، مگر اب وہاں کی زمین سیم و تھور کا شکار ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، پانی کی قلت کی وجہ سے سندھ میں 10لاکھ ایکڑسے زیادہ زرعی زمین ناقابلِ کاشت ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں کسانوں کو نقل مکانی کرنی پڑی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی بھی سندھ کے ڈیلٹا کو مزید کمزور کر رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندری سطح میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی ماہرین کے مطابق، اگر یہی صورتحال برقرار رہی، تو 2050 تک کراچی اور سندھ کے دیگر ساحلی علاقے شدید خطرے میں آ سکتے ہیں۔اس تمام صورتحال کے باوجود، حکومت کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نظر نہیں آتے۔ اگر سندھ کے ڈیلٹا کو بچانا ہے، تو سب سے پہلے پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان کے آئین کے مطابق، تمام صوبوں کو ان کے حصے کا پانی ملنا چاہیے، مگر عملی طور پر سندھ کو اس کے حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ سندھ کو اس کا جائز پانی فراہم کرے تاکہ نہ صرف ڈیلٹا کو بچایا جا سکے بلکہ مقامی آبادی کا معاش بھی محفوظ رہے۔ اس کے علاوہ، سندھ حکومت کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ مینگرووز کے جنگلات کو بچانے کے لیے خصوصی مہمات شروع کی جائیں، مقامی ماہی گیروں اور کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے تاکہ وہ بدلتے ہوئے ماحول سے ہم آہنگ ہو سکیں، اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے جدید آبپاشی نظام متعارف کرایا جائے۔

تازہ ترین