• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوم پاکستان کی مرکزی تقریب میں صدر پاکستان آصف زرداری کی تقریر نے بہت بدمزہ کیا ۔ صدر پاکستان کا خطاب سن کر کسی کو امریکی صدر جوبائیڈن کا خیال آیا تو کسی نے گورنر جنرل غلام محمد کو یاد کیا۔ میراخیال ہےکہ تمام تر ضعف و ناتوانی کے باوجود صدر آصف زرداری کا موازنہ مفلوج اور اپاہج گورنر جنرل غلام محمد سے نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ رسوائی و جگ ہنسائی کا سبب بن جانے والی ان کی تقریر سے متعلق بہت سی باتیں کی جا رہی ہیں۔ بعض سیاسی مخالفین یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شاید صدر صاحب کوئی ان پڑھ اور گنوار انسان ہیں حالانکہ ان کی ڈگریوں پر بات نہ بھی کی جائے تو ماضی میں انگریزی اور اردو میں انکی گفتگو پرمبنی ویڈیوز باآسانی دستیاب ہیں تجن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آصف زرداری صاحب ایک قادر الکلام سیاستدان ہیں۔ تو پھر ہوا کیا؟پیپلز پارٹی کے بعض رہنمائوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں اردو پڑھنے میں دِقت کا سامنا رہتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو انگریزی میں تقریر کی جا سکتی تھی یا پھر رومن رسم الخط میں اردو تقریر لکھ کر دی جا سکتی تھی۔ میری معلومات کے مطابق آصف زرداری صاحب سے اسیری کے دوران جو سلوک روا رکھا گیا، اس کے اثرات اب بڑھاپے کے باعث ظاہر ہورہے ہیں۔ جیل میں آصف زرداری صاحب کی زبان کاٹ دی گئی تھی اور ممکنہ طور پر اس لکنت کا سبب وہی دلخراش واقعہ ہو سکتا ہے۔

جب صدر فاروق لغاری نے بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کردی تو آصف زرداری کو گرفتار کرلیا گیا اور اس کے بعد وہ طویل عرصہ مختلف مقدمات میں پابند سلاسل رہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب آصف علی زرداری جسٹس نظام قتل کیس میں کراچی پولیس کی تحویل میں تھے تو لاہور سے سی آئی اے پولیس کے ایک انسپکٹر کو آصف زرداری سے تفتیش کرنے کیلئے کراچی بھیجا گیا۔ تب رانا مقبول آئی جی سندھ تھے۔ اطلاعات کے مطابق اس پولیس انسپکٹر نے آصف علی زرداری کو تفتیش کی آڑ میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور شیشے کا گلاس توڑ کر آصف علی زرداری کی گردن پر تیز دھار آلے کے طور پر چلانے کی کوشش کی اور بعد ازاں اس سے آصف زرداری صاحب کی زبان کاٹ دی جس کے بعد بے ہوشی کے عالم میں انہیں آغا خان ہسپتال لے جایا گیا۔ اس واقعہ کے بعد آصف زرداری کی ہمشیرہ نے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تو سندھ پولیس نے واقعہ کو خود کشی کا رنگ دینے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ آصف زردار ی نے خود کشی کی ناکام کوشش کے دوران اپنے آپ کو زخمی کیا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک پولیس انسپکٹر کی کیا مجال کہ وہ سابق وزیر اعظم کے شوہر پر اس طرح کا تشدد کرے لیکن یہ پولیس انسپکٹر اپنی نوعیت کا منفرد کردار تھا۔ پولیس مقابلوں کے حوالے سے بدنام انسپکٹر نوید سعید جہلم کے رہائشی ریٹائرڈ صوبیدار محمد سعید کا بیٹا تھا۔ لاہور پولیس کے سربراہ میجر محمد اکرم نے اس وقت کے اے آئی جی منیر ڈار سے نوید سعید کی سفارش کی اور وہ کبڈی کے کوٹے پر 1984میں اے ایس آئی بھرتی ہو گیا۔ زیر تربیت تھانیدار کی حیثیت سے اس کی پہلی پوسٹنگ ضلع قصور میں ہوئی جو اس وقت لاہور رینج کا ہی حصہ تھا پھر وہ تربیت کیلئے سہالہ چلا گیا۔ اس دوران پنجاب پولیس کی کبڈی ٹیم صوبائی چیمپئن شپ جیت گئی تو زیر تربیت تھانیدار نوید سعید کو براہ راست سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی مل گئی اور بہت جلد جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں کے باعث اسے بااثر شخصیات تک رسائی حاصل ہو گئی۔ اس نے کئی ٹاپ ٹین اشتہاریوں کو پولیس مقابلوں میں ٹھکانے لگایا تو جرات اور بہادری کی وجہ سے وہ جلد ہی سیاسی شطرنج کی بساط کا ایک اہم مہرہ بن گیا۔ انسپکٹر نوید سعید کو سب سے زیادہ شہرت تب ملی جب پولیس نے پنجاب اسمبلی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سلیمان تاثیر کو گرفتار کرنے کی کوشش کی اور مزاحمت پر انھیں تھپڑ رسید کیا۔ اس واقعہ کا اخبارات میں بہت چرچا رہا اورحکومت نے وقتی طور پرانسپکٹر نوید سعید کو معطل کر دیا مگر کچھ عرصہ بعد اسے بحال کردیا گیا۔ بعض لوگ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ 12اکتوبر 1999ء کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کیے جانے کے بعد پولیس کے جس دستے کو کراچی ایئر پورٹ سے انہیںتحویل میں لینے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اس میں انسپکٹر نوید سعید بھی شامل تھے۔

نوید سعید پولیس ملازمت کے ساتھ پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتا تھا اور یہاں سے اس نے بہت دولت کمائی چنانچہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس کے خلاف نیب نے ناجائز اثاثہ جات کے الزام میں ریفرنس دائر کیا اور اسکا نام ای سی ایل (ایگزٹ کنٹرول لسٹ) میں درج ہو گیا۔ انسپکٹر نوید سعید بذریعہ ٹرین کوئٹہ پہنچا اور وہاں سے ایران چلا گیا ایران سے دوبئی اور پھر لندن کی راہ اختیار کی کیونکہ اس کے پاس برطانیہ کا پاسپورٹ بھی تھا۔ نوید سعید کو تین برس قیدکی سزا ہو گئی مگر اس نے لندن سے ہی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے پلی بار گین کی درخواست دی جو منظور ہو گئی اور مورخہ 19جنوری 2005ءکو ریفرنس نمبر 1/C/2005 سے بری ہو گیا مقدمہ ختم ہونے کے بعد وہ پاکستان آ گیا اور ملازمت پر بحال ہونے کیلئے سروس ٹربیونل میں درخواست گزار دی۔ مگر نومبر 2005ء میں زمین کے تنازع پر رائیونڈ روڈ ستوکتلہ کے علاقہ میں اسے قتل کردیا گیاتو یہ سب راز بھی اس کے ساتھ ہی دفن ہو گئے۔

تازہ ترین