• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھٹو خاندان نے اپنی بے مثال اور منفرد قربانیوں کے ذریعے پاکستانی سیاست اور تاریخ پر انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں۔ تاریخ کے جبر، حالات کی ستم ظریفی اور بے رحم سیاست کی نیرنگی کے باوجود بھٹو کا نام آج بھی پاکستانی سیاست میں گونج رہا ہے۔ ان کی محبت میں شدت اتنی ہے کہ آج نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ان کے نام پر لوگ ووٹ دیتے ہیں اور ان سے نفرت کی کیفیت بھی یہ ہے کہ بھٹوکے مخالفین آج بھی انہیں معاف کرنے پر تیار نہیں۔ بڑے آدمیوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں لیکن ان غلطیوں کے باوجود بڑے لوگ ہمیشہ بڑے ہی رہتے ہیں۔ کچھ یہی صورتحال ذوالفقار علی بھٹو کی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ذہانت، فطانت، علم اور گفتار کی طاقت کی بدولت وہ مقام پیدا کیا کہ آج تک ان کا نام اور مقام تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جا سکا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جناب آصف علی زرداری نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خاندان کو اپنی قیادت میں لیا۔انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو اس خاندان کا واحد وارث قرار دیتے ہوئے میدانِ سیاست میں اتارا اور اس لانچنگ میں بہت حد تک کامیاب بھی رہے۔ لیکن بدقسمتی سے آصف علی زرداری اپنے باصلاحیت صاحبزادے بلاول کیلئے برگد کا درخت ثابت ہوئے جسکے سائے کے نیچے بلاول نہ تو اپنا سیاسی قد بڑھا سکے اور نہ ہی کوئی نئی سیاسی سوچ اور فکر ان کے ہاں پرورش پا سکی۔ ابتدائی زمانے کی چند شاندار تقاریر کے باوجود اب تک ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ کوئی نئی بات یا کوئی نیا نظریہ عوام میں لانے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ اسی روایتی سیاست کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے۔ سندھ کی سیاست میں کتنے ہی خاندان ابھرے اور زمانے کی رفتار کا ساتھ نہ دے سکے۔ اب ان خاندانوں کے افراد تو موجود ہیں لیکن انکا عملی کردار محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک زمانے میں کراچی کی سیاست میں ہارون اور گبول خاندانوں کا طوطی بولتا تھا۔ لاڑکانہ میں ایوب کھوڑو، شکارپور میں سر غلام حسین ہدایت اللہ، اللہ بخش سومرو، دادو میں سائیں جی ایم سید، پیرعلی محمد راشدی، تھرپارکر میں غلام محمد وسان کے نام کا سکہ چلتا تھا۔ ٹھٹھہ میں لغاری اور چانڈیو بڑا نام تھے لیکن اب ان میں بیشتر کو کوئی جانتا بھی نہیں شاہ نواز بھٹو کو انکے عروج کے دور میں لاڑکانہ کے انتخابی معرکہ میں شکست دینے والے شیخ مجید سندھی کا خانوادہ سیاست میں فعال نہیں۔ بھٹو خاندان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ بہر حال بھٹو کا نام اور نظریہ آج بھی زندہ ہے۔ ان سے محبت اور نفرت کرنے والے دونوں طبقات موجود ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے میر مرتضی بھٹو اپنی بہن کے دور اقتدار میں کراچی کی سڑک پر قتل کر دیے گئے جسکے بعد یہ خاندان پس منظر میں چلا گیا۔

میر مرتضی بھٹو کی صاحبزادی فاطمہ بھٹو جنکی سیاست پر گہری نظر رہی اور وہ پہلے دور اقتدار میں اپنی پھپھو محترمہ بے نظیر بھٹو کے نزدیک بھی رہیں۔ فاطمہ بھٹو سیاست اور ثقافت کے حوالے سے انٹرنیشنل پرنٹ میڈیا میں لکھتی بھی رہتی ہیں لیکن وہ سیاست کی بے رحمی کا شکار ہو گئیں حالانکہ اندرون سندھ میں لوگ آج بھی میر مرتضی بھٹو سے بڑی محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ فاطمہ بھٹو نے اپنا تشخص ایک بین الاقوامی مفکر کے طور پر پیش کیا ہے وہ اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں میں مختلف موضوعات پر ہونے والی کانفرنسز میں شریک ہوتی ہیں اور ان کا علمی تشخص عالمی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے ان کی انگریزی نظموں کی ایک کتاب بھی شائع ہو چکی ہے جس نے مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے پوتے اور میر مرتضی بھٹو کے صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر جن کا نام انکے دادا کے نام پر رکھا گیا تھا انکی سیاست میں انٹری، سیاسی میدان میں ہوا کا نیا جھونکا قرار دیا جا رہا ہے ذوالفقا ر علی بھٹو (جونیئر) اپنے اندر ہندوستان کی سب سے قدیم تہذیب سندھ دھرتی اور عرب کی سب سے قدیم سر زمین بابل نینوا کا تشخص اور اثرات رکھتے ہیں۔انکی شخصیت میں آرٹ اور سیاست دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ اپنے ابتدائی پیغام میں انہوں نے ملکی مسائل خصوصا سندھ کےحالات، دریاے سندھ سے نہریں نکالنے جیسے معاملات پر بالغ نظری سے گفتگو کی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جونئیر نے ایک مخصوص ماحول میں پرورش پائی۔انکی پیدائش دمشق میں ہوئی۔جب وہ 3سال کے تھے،جب انکا خاندان پاکستان منتقل ہوا۔

ذوالفقار علی بھٹو جونئیر نے 2014میں ایڈنبرا یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے ایچ اور 2016میں سان فرانسسکو آرٹ انسٹی ٹیوٹ سے ایم ایف اے حاصل کیا۔ ذلفقار علی بھٹو جونیئر نے سیاست میں آنے کا اعلان کر کے بلاول بھٹو کیلئے ایک صحت مند مقابلے کی فضا پیدا کر دی ہے کیونکہ فی الحال بلاول بھٹو ایک بلا مقابلہ لیڈر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں جسکی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر کن نظر نہیں آتی۔ ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی آمد سے نہ صرف مقابلے کی فضا پیدا ہوگی بلکہ نوجوان سیاستدانوں میں ایک اچھا اضافہ ثابت ہوگا۔

آنے والے وقتوں میں میر مرتضی بھٹو کا یہ بیٹا سیاست میں اپنے قدم کس حد تک جماتا ہے، سندھ کے علاوہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام اسے کہاں تک قبولیت سے نوازتے ہیں اور مقتدر حلقے اسےشرف قبولیت بخشتے بھی ہیں یا نہیں یہ تو بعد بات کی باتیں ہیں لیکن فی الحال یہ امر خوش آئند ہے کہ ایک نئے نوجوان سیاستدان کی آمد سے سیاست میں نئے رجحانات دیکھنے کو ملیں گے پاکستانی عوام ان کے دادا کی طرح ان سے بہتر کارکردگی کی امید رکھتے ہیں۔

تازہ ترین