• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ نے مختلف ممالک کی 80کمپنیاں بلیک لسٹ کر دی ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے مفادات کے منافی کام کر رہی ہیں۔ پابندی کی زد میں آنے والی ان کمپنیوں میں 50سے زیادہ کا تعلق چین،19کا پاکستان اور چار،چار کا متحدہ عرب امارات اور ایران سے ہے۔ فرانس، افریقہ، سینیگال اور برطانیہ کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ یہ پابندیاں ایسے وقت میں لگائی گئی ہیں جب عالمی سطح پر تجارتی جنگ اور اسٹرٹیجک مقابلے میں اضافہ ہو رہا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین کے خلاف محصولات میں اضافے کی وجہ سے واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب امریکہ نے پاکستانی کمپنیوں پر اس نوعیت کی پابندیاں عائد کی ہوں۔ 2018ءمیں 7پاکستانی انجینئرنگ کمپنیوں کو امریکی نگرانی میں شامل کیا گیا تھا۔ 2021ءمیں 13کمپنیوں پر جوہری اور میزائل پروگرام میں معاونت کے الزامات لگا کر پابندیاں عائد کی تھیں۔ 2024ءمیں پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے منسلک کمپنیوں پر ایسی ہی پابندیاں لگائی تھیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پابندیاں پاک امریکہ تجارتی تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کر سکتی ہیں اور اس سے عالمی سطح پر اقتصادی کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ امریکی وزیر تجارت کا کہنا ہے کہ حریف ممالک کو امریکی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کر کے فوجی طاقت بڑھانے اور امریکی شہریوں کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ چین نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ امریکہ فوجی امور کو بہانہ بنا کر تجارت اور ٹیکنالوجی کے معاملات کو سیاسی رنگ دینے اور انہیں بطور ہتھیار استعمال کرنے سے باز رہے۔یہ اقدامات بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں اور یہ واضح طورپر تسلط پسندانہ عمل ہے۔چین اپنے کاروباری اداروں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔

تازہ ترین