(گزشتہ سے پیوستہ)
اس مردِ شریف کے اطوار سے مایوس ہو کر میں نے اپنا سامان اٹھایا اور آہستہ آہستہ ٹیکسی سٹینڈ کی جانب چلنے لگا۔ ابھی دو قدم ہی چلا تھا کہ روشنی میں نہا گیا اور پھر ایک ٹیکسی میرے قریب آ کر رک گئی۔ ڈرائیور نے اتر کر میرا سامان ڈکی میں بند کردیا اور پھر سٹیئرنگ پر بیٹھ کر ہونقوں کی طرح میرا منہ تکنے لگا گویا پوچھ رہا ہو کہ اب کیا عزائم ہیں، میں نے ڈائری میں سے ارشد کا پتہ نکال کر اس کے آگے رکھ دیا APELDOORN 342 KRUIZEMUNT STARAT اس نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر نیند میں ڈوبے ہوئے اس قصبے کی فضائوں میں ہلچل پیدا کرتا ہوا چیختے ویلز کے ساتھ بائیں جانب کی ایک سڑک کو مڑ گیا۔
یہ کوئی کاروباری علاقہ تھا مگر لوگ دکانیںبند کرکے کب کے گھروں کو جا چکے تھے صرف نیون سائن آن تھے۔ جن سے کاروبار کی نوعیت کا اندازہ ہوتا تھا البتہ ایک انڈونیشی ریستوران ابھی تک کھلا تھا اور بڑے بڑے شیشوں والی کھڑکیوں میں سے کچھ لوگ اندر بیٹھے نظر آ رہے تھے۔ ذرا آگے کراسنگ کے قریب ایک سپر مارکیٹ تھی جس کی شیشے کی دیواروں پر چسپاں اشتہارات کے ذریعے معزز گاہکوں کو یہ نویدسنائی گئی تھی کہ فلاں کوپن دکھانے پر انہیں گاجریں 80سینٹ کی بجائے صرف 69 سینٹ میں دستیاب ہوسکیں گی اور وہ جوس کی بوتل ایک گلڈ اور دس سینٹ کی بجائے صرف 89 سینٹ میں خرید سکیں گے۔ ٹریفک سگنل کراس کرتے ہی بائیں ہاتھ پر ڈانی خراف ہیئر ڈریسر کی دکان پر نظر پڑی یہاں شو کیس میں استرے اور قینچیاں سجی ہوئی تھیں بعد میں ارشد کی زبانی پتہ چلا کہ ڈانی خراف صاحب خاندانی نائی ہیں اور قصبے میں جنم لینے والی کم از کم دو نسلوں کی حجامت بنا چکے ہیں یہاں سے بائیں جانب مڑتے ہی دکانوں کا سلسلہ ختم ہوگیا اور سرکاری دفاتر دکھائی دینے شروع ہوئے یہ قدرے کھلی سڑک تھی اور اس کے ایک جانب فرانسیسی کا ’’پی زو‘‘ کا شو روم بنا ہوا تھا کچھ دور آگے ایک خوبصورت نہر دکھائی دی جس کے کنارے کچھ کشتیاں کھڑی تھیں۔
نہر عبور کرتے ہی رہائشی علاقہ شروع ہوگیا یہاں چھوٹے چھوٹے مکانات کے سلسلے تھے چونکہ یہ گھر سڑک کے کنارے واقع تھے اس لئے کہیں کہیں لوگوں نے نچلے حصوں میں دکانیں بھی بنالی تھیں۔ پچاس گز کے فاصلے پر ایک اور کراسنگ سے ڈرائیور نے ٹیکسی دائیں جانب موڑ لی اور اس کے ساتھ ہی ہم بڑی سڑک سے ہٹ کر ایک چھوٹی سی گلی میں داخل ہوگئے یہاں گھپ اندھیرا تھا اور چھوٹی چھوٹی کھڑکیوں والے قدیم طرز کے مکانات دم بخود کھڑے تھے۔ ان کے جھرکوں میں سے ہلکی ہلکی روشنی بڑی بڑی کرینیں اور عمارتی سامان بکھرا ہوا تھا۔ اس علاقے کا نام SEVEN HUISEN (سیون ہاوزن)یعنی ’’سات گھروں کا علاقہ‘‘ تھا اور یہ ایک زیر تعمیر ماڈرن کالونی تھی۔ اس علاقے میں سات گھروں پر مشتمل بلاک بنائے گئے تھے تعمیر کے کام کی وجہ سے سڑک جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ تاہم ذرا آگے چل کر یہ بہتر ہوگئی کیونکہ اب ہم اس بستی کے مکمل طور پر تعمیر شدہ حصے میں پہنچ چکے تھے تین بلاک گزرنے کے بعد ڈرائیور نے گاڑی بائیں جانب کی ایک گلی میں موڑی اور پھر ایک مکان کے پچھواڑے میں کھڑ ی کردی۔
342 KRUIZEMUNT STARAT اس نے مکان کے باہر لگی نمبر پلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور اتر کر ڈکی میں سے سامان نکالنے لگا۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کرائے کے علاوہ کچھ رقم اس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔
وانکے ویل (شکریہ) اس نے گردن کو خم دے کر اور پھر ذاخ (خدا حافظ) کہتے ہوئے گاڑی واپس موڑلی۔ اس ’’ذاخ‘‘ پر مجھے یوں لگا جیسے کسی نے غلیل میں کنکر لپیٹ کر ٹین کے کنستر پر دے مارا ہو۔ میں نے چند قدم چل کر دروازے کے باہر لگی بیل (BELL) پر انگلی رکھ دی۔ رات کےسناٹوں میں دوسری منزل سے گھنٹی کی آواز سنائی دی اور چند لمحوں بعد لکڑی کی سیڑھیوں پر ارتعاش پیدا ہوا کوئی سیڑھیاں اترتا ہوا آرہا تھا۔ ٹھپ، ٹھپ، ٹھپ آہستہ آہستہ یہ آوازصدر دروازے کے بالکل قریب پہنچ گئی اور پھر کسی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ تیکھے نقوش اور سانولے رنگ کا ارشد گائون پہنے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے آنکھیں ملتے ہوئے ہلکی ہلکی روشنی میں مجھے پہچاننے کی کوشش کی اور پھر مجھ سے لپٹ گیا ۔ ارے بونگے تم.....
ہاں اے زیرک انسان.... میں!میں نے دروازے میں داخل ہوتے ہوئے کہا ’’آئو اوپر آ جائو۔ اس نے میرے ہاتھ سے ایک سوٹ کیس تھامتے ہوئے کہا اور آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔ پہلے فلور پر دائیں جانب ایک کمرہ تھا۔ ارشد نے سامان ایک کونے میں رکھ کر مجھے کمرے کی واحد کرسی پر بیٹھنے کیلئے کہا اور خود سامنے چارپائی پر دراز ہوگیا۔
کس حال میں ہیں یاران وطن! اس نے پہلی بار کسی مصرعے کے ساتھ بدسلوکی سے گریز کرتے ہوئے پوچھا۔ سب ٹھیک ہیں بلکہ دھاندلی چھائی ہوئی ہے۔ میں نے بتایا۔
کیا مطلب؟۔
تم دھاندلی کا مطلب نہیںسمجھتے ۔ یار وہی جو ایلس کے امریکہ پہنچنے سے پہلے تم نے مچائی ہوئی تھی۔
ہا، ہا۔ اس نے خوش ہو کر قہقہہ لگایا۔ اب صرف یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ اچھا چھوڑو یہ باتیں پھر ہوں گی۔ پہلے بتائو کھانا کھائو گے؟
نہیں۔ کھا کے آ رہا ہوں۔ ایلس کہاں ہے؟(جاری ہے)