امریکا میں فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنا جرم بن گیا، یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حامی غیر ملکی طلبہ کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا گیا، فلسطین کی حمایت کرنے والے 300 سے زائد غیر ملکی طلباء کے ویزے منسوخ کر دیے گئے۔
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے ایک بیان میں تصدیق کی ہے کہ محکمۂ خارجہ نے ان طلباء کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے افراد کا پیچھا کر رہی ہے جنہیں وہ جنونی قرار دیتے ہیں۔
مارکو روبیو نے اپنے بیان میں کہا ہے ہم ہر روز ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں، ایسے جنونی جہاں بھی نظر آئیں گے، ان کا ویزا منسوخ کر دیا جائے گا۔
امریکی شہر ہوسٹن میں پی ایچ ڈی کرنے والی ترک طالبہ رومیسہ اوزترک کو فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔
رومیسہ اوزترک کو ان کے گھر کے باہر سے گرفتار کیا گیا اور ان کا ویزا بھی منسوخ کر دیا گیا۔
یہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں بولنے والے متعدد غیر ملکی طلباء کے ویزے منسوخ کیے جا چکے ہیں۔
ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے امریکی حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے آزادیٔ اظہار کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کے وکلاء کا کہنا ہے کہ طلباء کی گرفتاریاں اور ویزا منسوخیاں ناصرف جمہوری اقدار کے منافی اقدام ہیں بلکہ آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانے کی کوشش بھی ہیں۔
امریکی حکومت کے اس سخت رویے پر عالمی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، مختلف طلباء تنظیمیں اور سول سوسائٹی اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔