• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ِ پاکستان محترم آصف علی زرداری کا واضح موقف سامنے آیا ہے کہ ”ذاتی و سیاسی مفاد ایک طرف قومی مفاد مقدم رکھیں، دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے یکطرفہ فیصلے کی حمایت نہیں کر سکتا“

مجھے نومبر 2004ء کی بینکاک میں ہونیوالی ’’عالمی اتحاد برائے تحفظ فطرت (آئی یو سی این) کی وہ کانفرنس یاد آرہی ہے جس میں عالمی کانفرنس کی سائیڈ لائنز پر تربیت کا انتظام کیا گیا تھا۔ فطرت کے تحفظ یا موسمیاتی تبدیلیوں کا موضوع ہو اور وہاں پاکستان کا نام نہ آئے یہ ہو نہیں سکتا، کانفرنس میں پاکستان کے پگھلتے گلیشیرز انڈس ریور ڈیلٹا اور انڈس ڈولفن کو درپیش خطرات پر نہ صرف تحقیقی رپورٹس پیش کی گئیں بلکہ ان تینوں مسائل کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔ حالیہ ایشو جس پر ارباب اختیار و اقتدار کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ دیگر نئی پانچ کینالز کیساتھ حکومت نے جو چولستان کے صحرا کو سرسبز بنانے کیلئے چولستان نہر کے نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ ایک ناقابل عمل اور نقصان دہ منصوبہ ہوگا بلکہ بھارت کی راجستھان نہر جو پاکستان کیساتھ تھر کے پاس سرحد تک نکالی گئی ہے، کے منصوبے کی طرح ایک ناکام اور معیشت پر بوجھ منصوبہ ثابت ہوگا۔ منصوبے کے اعلان کیساتھ ہی نہ صرف سندھ کی حکومت بلکہ اندرون سندھ مختلف سیاسی جماعتوں اور غیر سیاسی تنظیموں کی طرف سےـچولستان نہرکی تعمیر کیخلاف احتجاج میں شدت آگئی ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ نہر کی تعمیر کو فوری روکا جائے کیوں کہ اس سے سندھ کی زرخیز زمینوں کو شدید نقصان پہنچے گا اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ بنجر ہو جائیں گی اور سمندر کی اوپر کی سطح، یعنی پنجاب میں دریاؤں پر مزید ڈیم بنے یا بیراجوں سے نئی نہریں نکلیں تو نہ صرف سمندر کی سطح بلند ہو گی بلکہ ہزاروں میل پر پھیلے ڈیلٹا کے ایکو سسٹم، قدرتی حیات، مینگروز کے جنگلات، آبی حیات اور اس سے وابستہ لوگوں کے روزگار کو شدید نقصانات ہونگے۔

2004ء میں آبی وسائل کے ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اب اوپر یعنی شمالی علاقوں کے پہاڑوں پر مزید پانی نہیں ہے اور جو ہے اسے بچانا ہو گا اور دریائے سندھ کے ڈیلٹا کا تحفظ اسلئے ضروری ہے کہ سمندر کو اوپر آنے سے روکا جاسکے، اندازہ کر لیں کہ آبی ماہرین آج کیا کہتے ہونگے؟ ایک نظر چولستان نہر کے منصوبے پر ڈالیں تو لگتا یہی ہے کہ منصوبہ ناکام ثابت ہوگا کیوں کہ 231 ارب روپے کی لاگت کے اس منصوبے میں ستلج پر ہیڈ سلمانکی سے فورٹ عباس تک 176کلو میٹر لمبی اس نہر کے ذریعہ 4120کیوسک پانی پہنچایا جائیگا، اب سوال یہ ہے کہ اوپر شمالی علاقوں میں گلیشیر جو موسمیاتی تبدیلیوں کا بدترین شکار ہیں اور تیزی سے پگھل رہے ہیں، کیا اس صورتحال میں دریا میں سارا سال اتنا پانی موجود ہوگا کہ نئی نہر سے ریتیلے علاقوں کو سیراب کیا جاسکے؟

سندھ کا صوبہ دریائے سندھ کے ٹیل پر ہے اور دریا کے اختتامی علاقوں اور نہروں میں پانی کے بہاؤ میں کمی اور سست روی ہوتی ہے اور کاشتکار مشکلات میں رہتے ہیں۔ نئے نہری منصوبوں کی وجہ سے ماحول پر مرتب ہونے والے اثرات بھی سنگین ہیں۔ جب پانی کا بہاؤ تبدیل ہوتا ہے تو مٹی کے کٹاؤ اور زمین کی زرخیزی ختم ہونے لگتی ہے۔ اس سے موسمیاتی تبدیلیوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، جسکے اثرات نہ صرف زراعت پر بلکہ پورے خطے کی آب و ہوا پر بھی ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ صورتحال سندھ کے لئے ایک بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر رہی ہے-

حکومت ایک ایسے علاقے صحرائے چولستان میں نہر لیجانے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جہاں اس سے پہلے کسی نے کبھی نہر لیجانے کا سوچا ہی نہیں تھا۔ انگریز نے تکنیکی تحقیق اور انجینئرنگ کے اصولوں کے مطابق یہاں نہری نظام بنایا، لیکن ہم نے بغیر تحقیق کے چشمہ رائٹ کینال بنائی، جس میں بارہ سو کیوسک پانی چلنا تھا، لیکن یہ مقدار کبھی 400کیوسک سے آگے نہ بڑھ سکی۔کچھی کینال کی پہاڑی برساتی نالوں کی مخالف سمت میں بنائی گئی ہے،ماضی کی بارشوں میں ان برساتی نالوں نے کچھی کینال، علاقے کے کاشتکاروں اور اُوچ پاور پلانٹ کو بدترین نقصان پہنچایا اور پٹ فیڈر کو مٹی سے بھر دیا اب ہم غلط انجینئرنگ کر کے اُس جگہ نہر لے جا رہے ہیں جہاں نہر بنتی ہی نہیں ہے۔


جب ہم ماہرین آبپاشی کی رائے کو مد نظر رکھتے ہیں تو نئی نہروں کی تعمیر سے انڈس ڈیلٹا کو ایسے ہی خطرات لاحق ہیں جیسے قازقستان اور اُزبکستان میں’’ایرل سی‘‘جھیل کے ساتھ ہوا، جو سوویت یونین کی غلط پالیسیوں اور ناکام تجربات کی وجہ سے آج نمک کا ڈھیر بن چکی ہے۔ کیونکہ روس نے دنیا کی چوتھی بڑی جھیل کے جنوب میں ’’آمو دریا‘‘ اور مشرق میں ’’سئیر دریا‘‘ کا رخ موڑ کر صحرائی علاقوں میں پانی پہنچا کر کپاس کی کاشت کیلئے تیار کیا جو جھیل کیلئےتباہ کن ثابت ہوا اور جھیل خشک ہو کر صرف 10فیصد رہ گئی۔ ماہرین کے مطابق اگر اقدامات نہ کئے گئے تو انڈس ڈیلٹا کی صورتحال شاید ’’ایرل سی‘‘ سے بھی بڑی تباہی کا سبب بنے۔

کیونکہ یہاں پاکستان میں حکومتیں اسے تباہی نہیں سمجھ رہیں نہ مستقبل کی خوفناک بربادی کیلئے تیار ہیں۔ انڈس ڈیلٹا بحر ہند پر بنگلہ دیش اور بھارت کے پاس سُندر بن کے بعد دوسرا بڑا ڈیلٹا ہے اور ماہرین کے دعوے کے مطابق اسکی تباہی کے اثرات نہ صرف پورے بحر ہند پر ہوں گے بلکہ انٹارکٹیکا تک جائیں گے کیوں کہ انڈس ڈیلٹا سے افزائش کے بعد سمندری حیات انٹارکٹیکا تک جاتی ہے اور تباہی کی صورت میں ڈیلٹا کی دوبارہ بحالی ایرل سی کی طرح ناممکن ہوگی۔

تازہ ترین