میرے نزدیک کسی بھی قسم کے واقعے، حادثے یا تخلیق کی اہم وجہ اور بڑی خوبی کوئی بنتی ہے تو یہ ہے کہ واقعہ یا تخلیق پڑھنے یا سننے والے کو متحرک کر دے کہ میرے جیسے شخص کیلئے یہی زندہ رہنے کا جواز ہے۔ پاکستان میں وسیع الذہن، کشادہ دلی، متحمل مزاجی و بردباری تو آگے نہ بڑھی البتہ ہمارا سماجی رویہ اور کردار انتہائی تنگ ہوتا گیا جو آج تک ہمارے ساتھ ہے کتنی تعجب خیز بات ہے کہ اپنی تنگ نظری اور کمزوریوں کو یہ کہہ کر نظر انداز کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے اسلاف بڑے لوگ تھے۔ ماضی کی طرف درخشندگی کا احساس اقوام کی تشخیص کیلئے ضروری تو ہے لیکن تیزی سے بدلتے تہذیبی، تعلیمی اور سماجی منظر نامے میں ماضی کی یہ عظمتیں کسی کے تشخص کی واحد پہچان نہیں ہو سکتیں قوموں کا مجموعی تشخص تب تک نہیں بنتا جب تک عصری اور جدید علوم فکر و عمل کا حصہ نہ بن جائیں۔ موجودہ دنیا مختلف قسم کے اسباب اور احوال سے بھری پڑی ہے یہ اسباب و احوال ہم سے الگ اپنا وجود رکھتے ہیں اور آپ اپنے زور پر قائم ہیں ہم ان سے ہم آہنگی کرکے اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں انکو نظر انداز کر کے منزل مقصود تک پہنچنا ممکن نہیں۔ اس صورتحال کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا یہ ہے کہ آدمی میں یہ صلاحیت ہو وہ پیش آمدہ حالات پر پوری طرح غور کر سکے، مسئلے کا نیا حل دریافت کرنیکی طاقت فہم اور جرات رکھتا ہو۔ میرے حساب سے تعلیم ایک ضابطہ حیات مقصدیت اور افادیت کی حامل ہے اور کوئی چیز اس سے زیادہ خطرناک نہیں کہ آدمی اپنے دل و دماغ میں صرف ایک ہی تصور رکھتا ہو۔ ون بک لائبریری تسخیر کا پیش خیمہ نہیں بن سکتی۔ دانشور اور تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ عصری تعلیم و تربیت کی زنجیروں ہی سے دہشت گردی کے جن کو قابو کیا جا سکتا ہے یہ دانشور اور ماہرین یہ سوال بھی پوری شدت سے اٹھاتے ہیں کہ ہم میں برداشت، درگزر، رواداری اور بھائی چارہ کے مادے کی کمی کیوں ہے؟ انکے تجزیے کے مطابق اسکی بنیادی وجہ عصری تعلیم میں پیچھے رہ جانا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بغیر معیاری اور عصری تعلیم کے نہ تو ہم موجودہ دہشت گردی یا انتہا پسندی کے مد مقابل آ سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں تعلیم دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے اہم ہے کہ دہشت گرد اور انتہا پسندی کو کتاب اور قلم سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔ آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ تشدد کا پھیلتا ہوا دائرہ ہے، جس سے پاکستان بھی بری طرح متاثرہے بر صغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ خطہ دنیا کو بھائی چارے اور انسان دوستی کا سبق دیتا رہا جیسا کہ بیسویں صدی کے عظیم دانشور و مفکر روماں رولاں نے برصغیر کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اگر اس سرزمین پر کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تہذیب کے آغاز کے دنوں سے ہی انسان کے سارے خواب اور ارمان پورے ہوتے رہے ہیں تو وہ جگہ بر صغیر ہے‘‘۔ آج اسی برصغیر کے ایک حصے یعنی پاکستان کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے کہ آخر کس طرح تشدد کی یہ ا ٓگ بجھائے، یہ سوال بہت پہلے اور کئی بار اٹھ چکا ہے کہ آخر ملک میں امن کی بحالی اور تشدد کے خاتمے کیلئے کونسا راستہ اپنایا جائے۔ میرے حساب سے ملک میں تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے سب سے اہم اقدام تعلیمی نصاب کو ہتھیار بنا کر نئے سرے سے نافذ کرنا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسکول کے نصاب میں اخلاقیات، تحفظ انسانیت، انصاف، سماجی مساوات اور سیکولر اسباق کو شامل کیا جائے۔ آج اسکول و کالج میں جو تعلیم دی جا رہی ہے اس سے طلبہ کے کردار و افکار میں تضاد رہتا ہے ایسے میں بد امنی اور تشدد کو پھیلنے کا موقع تو ملے گا ہی ہم سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ زندگی کے کسی شعبے میں ترقی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک امن و سکون نہ ہو اور جہاں تک سوال ہے انسان کی زندگی کی کامیابی کا تو اس میں تعلیم کو مرکزیت حاصل ہے اور اگر تعلیم کے اندر ہی خرابی ہو تو کس طرح کوئی اپنی منزل تک کامیابی سے پہنچ سکتا ہے ؟میرے حساب سے انسان کیلئے سب سے اہم چیز علم ہے اگر انسان علم سے بے بہرا ہو تو اسکی معاشرے میں موجودگی یا عدم موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ قضیہ یہ ہے کہ بنیاد پرستی دراصل رواں پانی کو ٹھہرا دینے کے مماثل ہے جس سے پانی اور فکر دونوں سڑنے لگتے ہیں۔میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ یہ دور معلومات کی چو طرفہ بوچھاڑ تو کر رہا ہے لیکن علم کے خانے کو خالی چھوڑے ہوئےہے، معلومات اور علم کے فرق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ محض معلومات سے شخصیت کے جوہر نہیں کھلتے علم کے حصول اور اسے انگیز کرنے سے کُھلتے ہیں کہ معلومات سے صرف حافظہ کا تعلق ہے جبکہ علم ذہن کو روشنی ،روشن خیالی ،عصری سوچ ،بھائی چارہ اور شخصیت کو توانائی عطا کرتا ہے ۔میں جانتا ہوں میری یہ بات ارباب اختیار کے گلے سے نہیں اترے گی لیکن ایک بار انہیں پھر سے غور کرنا ہوگا کہ نظر ہونا اور بات ہے اور نظریہ ہونا دوسری بات ہے۔