• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہماری کھلی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے اس سے کیسے آنکھیں چرا لیں؟ چینی ملز کے مالکان نے کہا چینی فالتو پڑی ہے ملک کو فارن ایکسچینج کی ضرورت ہے چینی بیرون ملک بھیجنے کی اجازت دی جائے۔ حکومت نے سوچ و بچار شروع کردی کہ چینی کی برآمد کی اجازت دی گئی تو کہیں کال نہ پڑ جائے، چینی مہنگی نہ ہو جائے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے یقین دلایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا ملز مالکان کا دباؤ بڑھ گیا۔ اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، وفاقی حکومت تیار نظر آتی تھی مالکان سب بڑے بڑے لوگ تھے ان کا دباؤ تھا پنجاب کا سیکرٹری فوڈ معظم سپرا اور کین کمشنر عبدالرؤف اَڑ گئے کہ اگر چینی کی برآمد ہوئی تو چینی کی طلب و رسد میں فرق آئے گا چینی مہنگی ہو جائے گی۔ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو یہ رائے پسند نہ آئی اور انہوں نے شاہی حکم کے تحت سیکرٹری فوڈ اور کین کمشنر دونوں کو عہدوں سے فارغ کرکے افسر بکار خاص بنا دیا کئی ماہ گزرنے کے باوجود وہ ابھی تک افسر بکار خاص ہی ہیں۔ یہ فیصلے ہمارے جاگتی آنکھوں کے سامنے ہوئے اور آج اس غلط فیصلے کے اثرات ہمارے سامنے آ چکے ہیں،تب چینی کا اوسط نرخ 140 روپے فی کلو تھا اب خود حکومت کو یہ سرکاری ریٹ 163روپےمقرر کرنا پڑ گیا ہے گویا ہر عام شہری کو 23روپے فی کلو کے حساب سے چینی مہنگی خریدنی پڑ رہی ہے اس سے بڑا سکینڈل اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک غلط فیصلے کی وجہ سے ملز مالکان نے اندازاً 150 ارب روپے کما لئے ہیں اس فیصلے کے ذمہ دارکون سے چہرے تھے ان سے پردہ اٹھانا اور سزا دینا ضروری ہے اور دوسری طرف جنہوںنے اس غلط فیصلے کی مخالفت کی تھی اور وہ گناہ ناکردہ کی سزا بھگت رہے ہیں انہیں بحال کرکے سول ایوارڈ دینا بھی ضروری ہے۔ پچھلے سال کاشتکاروں کیلئے گنے کی قیمت نہیں بڑھائی گئی پہلےملز مالکان نے چینی برآمد کرکے اربوں روپے کمائے اور اب مہنگی چینی بیچ کر جیبیں گرم کر رہے ہیں بدقسمتی سے ملز مالکان اور حکومت کی یہ چشم پوشی آزاد معیشت اور بازار کی قوتوں کے اتار چڑھاؤ کے نام پر ہو رہی ہے یہ سرمایہ درانہ نظام کی بدترین شکل ہے جو اب دنیا میں کہیںبھی رائج نہیں اب امریکہ اور برطانیہ میں آزاد معیشت اور مارکیٹ اکانومی کے باوجود خوراک اور کھانے پینے کی اشیاء پر سرمایہ داروں کو کھل کھیلنے کی اجازت نہیں وہاں خوراک کی قیمتوں کو حکومت کم سے کم رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔

یہ غریب اور عاجز صحافی کوئی انقلابی نہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو تہہ و بالا کرنے پر یقین رکھتا ہو۔ نہ اس جاہل صحافی کو بالزاک کے اس قول پر یقین ہے کہ ’’ہر بڑے سیٹھ کے پیچھے کوئی جرم چھپا ہوتا ہے‘‘۔ نہ ہی اسے ماریوپیزو کے گاڈ فادر کے اس ڈائیلاگ پر یقین ہے کہ ’’بغیر ٹھوس وجہ کےدولت کے ارتکاز کے پیچھے لازماً چوری ہوتی ہے‘‘۔میرا تو عمران خان، بے نظیر اور نواز شریف کی طرح مارکیٹ اکانومی پر یقین ہے اور اس پر بھی میرا اتفاق ہے کہ کوئی قوم جب تک دولت پیدا نہ کرے وہ خوشحال نہیں ہوسکتی۔ مگر پاکستان میں ظالمانہ سرمایہ دارانہ (CAPITALISM) کی وہ شکل ہے جو امریکہ میں 1920ء میں ختم کر دی گئی تھی آج یہاں مل مالکان اور سرمایہ داروں نے کارٹیل بنا لئے ہیں حالانکہ مارکیٹ اکانومی کا مقصد صنعت کاروں کی ایک دوسرے سے مقابلہ بازی ہے تاکہ عام لوگوں کو اس مقابلے بازی کی وجہ سےبازار سے سستی چیزیں ملیں۔ اجارہ داری کی یہاں بدترین مثالیںقائم ہیں اور ریاست ہاتھ باندھے عام شہریوں کی لوٹ مار کو مجرمانہ خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔ سیمنٹ، بینکوں، شوگر ملز اور بجلی کارخانوں کے شعبے میں بدترین اجارہ داری قائم ہے سارے مالکان بجائے آپس کی مقابلہ بازی کے آپس میں مک مکااوراتفاق رائے سے نہ صرف پیداوار کی مقدار طے کرلیتے ہیں بلکہ مارکیٹ فورسز کی بجائے قیمت بھی خود ہی مقرر کرلیتے ہیں یہ ہرگز آزاد معیشت نہیں بلکہ ظالمانہ سرمایہ دارانہ سوچ ہے حکومتوں کو ان کارٹیلز اور اجارہ داریوں کو توڑنا ہوگا۔

سب سے پہلے بینکوں کا کارٹل دیکھیں دنیا بھر میں بینک عام لوگوں، تاجروں اور ضرورت مندوں کو سستے داموں قرضے فراہم کرتے ہیں مگر پاکستان کے سارے بینک صرف اور صرف حکومت کو مہنگے داموں قرض دیتے ہیں اور اسی قرض کی سود کے ساتھ واپسی کو بینکنگ سمجھا جا رہا ہے، ہاؤسنگ پر قرضہ دیا جا رہا ہے نہ کار کا سستا قرض فراہم ہے بینکوں نے آسان ترین راستہ حکومتوں کو قرض دے کر اپنایا ہوا ہے۔ سیمنٹ ملز کو نجی شعبے میں دینے سے اس کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں کیونکہ سیمنٹ مالکان خود بیٹھ کر پیداوار کا فیصلہ بھی کرتے ہیں اور خود ہی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ بجلی کارخانے جس طرح ناجائز پیسہ کما رہے تھے وہ تو سب نے دیکھ لیا۔ بجلی فراہم کئے بغیر بجلی کے فل نرخ وصول کرنا کونسی تجارت تھی؟ یہی حال چینی مالکان کا ہے کاشت کاروں سے گنا خریدتے ہوئے کم سے کم ریٹ دیئے جاتے ہیں پھر شوگر ملیں ان ادائیگیوں میں غیرمعمولی تاخیر کردیتی ہیں ماضی میں کئی شوگر ملز تو کئی سال تک ادائیگیاں موخر کرتی رہیں اب جب چینی بن جاتی ہے تو شوگر ملز کے اجارہ دار مختلف طریقوں سے منافع کماتے ہیں منافع ضرور کمائیں مگر کیا کبھی یہ بھی سوچا گیا ہے کہ گنا کاشتکاروں کوبھی منافع کا حصہ دیں جتنا فائدہ ہو وہ ملز مالکان کا اور جتنا نقصان ہو وہ یا کاشت کار کا یا چینی خریدنے والے صارفین کا؟ یہ کونسی تجارت ہے جس میں مالکان کوسراسر منافع اور باقی سب کو ہر صورت نقصان ہی ہوتا ہے۔

ہماری ریاست کا ان سکینڈلز اور بے رحمانہ لوٹ کھسوٹ کے بارے میں رویہ معذرت خواہانہ ہے فری مارکیٹ اکانومی میں بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ کارٹل اور اجارہ داریوں کا توڑ ریاست نے کرنا ہوتا ہے دنیا بھر میں ماہ رمضان میں خوراک اور فروٹ کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں برطانیہ میں تمام غیر مسلم سٹورز رمضان آفرز لگا کر سستی چیزیں فراہم کرتے ہیں اور یہاں الٹ چکر ہے کہ رمضان میں ہر چیز بالخصوص فوڈ آئٹم مہنگے ہو جاتےہیں کیا ملک بھر کے نمازی، تبلیغی، حاجی ،اسلامی بھائی اور مومن تاجروں میں ایک بھی ایسا نہیں جو رمضان میں سستی کھجوروں کا کاروبار کرلے، کوئی ایک بھی نیک پاک سیٹھ ایسا نہیں جو بیسن، گھی،اور کیلا، سیب سستا کرنے کا انتظام کر لے، کہنے کو ہم میں سے ہر کوئی سب سے بڑا انقلابی، سب سے زیادہ نیک اور سب سے زیادہ ایماندار ہے مگر رمضان کی قیمتیں ہم سب کے ایمان کی حقیقت کا منہ چڑا رہی ہیں!!۔

تازہ ترین