اللہ کا شکر ہے کہ عیدالفطر پاکستان اور پورے عالمِ اسلام میں غیرمعمولی مذہبی عقیدت سے منائی گئی۔ پاکستان اِن دنوں دہشت گردی کی زد میں ہے، لیکن عید کے روز پورا ملک پُرامن رہا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یورپ اور اَمریکہ میں بھی عیدالفطر کے اجتماعات غیرمسلموں کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں عید کے اجتماعات غیرمسلموں کیلئے غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے اور عالمی میڈیا نے اُن کی نہایت عمدہ کوریج بھی کی۔ امریکی صدر نے اپنی اور عوام کی طرف سے مسلمانوں کو عید مبارک پیش کی ہے۔ پاکستان میں جرمن سفیر شلوار قمیص پہنے عوام کی خوشیوں میں شریک ہوئے۔ چین کی طرف سے بھی عید مبارک کی صدائیں بلند ہوئیں۔
دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں افطار پارٹیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا۔ یہ رمضان المبارک کی برکتوں کا اعجاز ہے کہ پوری دنیا پر شادمانی کی کیفیت طاری رہی اور باہمی احترام کے رشتے بتدریج مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں بیشتر غیرملکی سفیر عید کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور خوشی کا بےمحابا اظہار کر رہے تھے۔خوشی کے اِن لمحات میں یہ سوگوار منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ جناب عمران خان، جو رِیاستِ مدینہ قائم کرنے کے جذبے سے سرشار ہیں، اُنہیں عید کے روز اُن کا کوئی رشتےدار اَور پارٹی لیڈر ملنے نہیں آیا۔ دوسرا روز بھی شدید تنہائی میں گزر گیا۔ مَیں نے اُن کی یہ بےبسی شدت سے محسوس کی اور مجھے بہت ملال ہوتا رہا۔ خوشی کے اِس موقع پر حکومت کی یہ ذمےداری تھی کہ وہ اَیسا ماحول پیدا کرتی جس میں عمران خان بھی خوشی محسوس کرتے اور اَپنے عزیزواَقارب اور قریبی دوستوں سے گلے ملتے اور عید کی شادمانیوں سے لطف اندوز ہوتے۔ اِس کا مداوا ہونا چاہئے۔
ہمیں یہ جو پُرسکون اور خوش رنگ ماحول میسّر آیا، اِس کیلئے ہمیں اپنے رب کریم کا شکرگزار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دفاعی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیے جو عوام کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کیلئے پوری طرح چوکس ہیں اور ہمارے فرض شناس افسر اور جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دشمن کا ہر وار ناکام بنا رہے ہیں۔ اِس شاندار عمل میں پاکستان کی مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل سیّد عاصم منیر کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اُنھوں نے عید اگلے مورچوں میں تعینات افسروں اور جوانوں کے ساتھ منائی اور خیبرپختونخوا میں اُن علاقوں کا دورہ کیا جو دہشت گردی کا شکار چلے آ رہے ہیں۔
ہم اپنی فوج کو سلام پیش کرتے اور اَپنے عظیم سپہ سالار سے اظہارِ تعزیت کرتے ہیں کہ رمضان کے مبارک مہینے میں اُن کی والدہ محترمہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے۔ ہمیں اُن پر فخر ہے کہ اُنہوں نے ایک ایسے بیٹے کو جنم دیا جس کے سینے میں اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب محفوظ ہے اور وُہ قائدِاعظم کے پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے اور اِسے عالمی برادری میں ایک باوقار مقام دلانے کیلئے شب و روز کام کر رہے ہیں۔ وہ اَپنے اِس غیرمتزلزل عزم کا بار بار اِظہار کر رہے ہیں کہ وہ اَپنی سرزمین کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلا کر دم لیں گے اور سخت فیصلوں کے ذریعے قانون کی حکمرانی قائم کریں گے۔ ہمارے وہ تمام عظیم شہری جو پاکستان اور اِس کے آئین سے قلبی تعلق رکھتے ہیں، اُنہیں اپنے سپہ سالار کے شانہ بہ شانہ کھڑا رَہنا چاہیے کیونکہ ہمارے دشمن اُنہیں نشانے پر رکھے ہوئے ہیں۔
ہم نے گزشتہ کالم میں یہ تجویز کیا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ہمیں اپنی پولیس فورس کو اَعلیٰ تربیت اور جدید اسلحے سے مسلح کرنا ہو گا۔ اخبارات سے ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے ہماری تجویز قبول کرتے ہوئے پولیس کو یہ ذمےداری سونپ دی ہے اور ضروری وسائل بھی مہیا کر دیے ہیں۔ اِس طرح دفاعی اداروں کا بوجھ قدرے کم ہو جائے گا۔ یہ پیش رفت غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے اور یہ توقع پیدا ہو گئی ہے کہ ملکی حالات بہتر ہوتے جائیں گے۔ اِن خوش فہمیوں کے درمیان بعض اوقات چند خدشات کی پرچھائیاں آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتی ہیں۔ عید سے کئی ہفتوں پہلے حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے دعوے کیے جاتے رہے، مگر عید گزر بھی گئی اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ابھی تک نہیں ہوا۔ اِس طرزِعمل سے عوام کو سخت مایوسی ہوئی ہے جسے خوش دلی میں تبدیل کرنے کیلئے اربابِ حکومت کو فوری اقدام کرنا ہو گا۔
بلاشبہ ہمارے حکمران ملکی حالات بہتر بنانے کیلئے خاصی تگ و دَو کر رہے ہیں۔ وزیرِاعظم اور فوج کے سپہ سالار کی کوششوں سے معیشت کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا سازگار ماحول پیدا ہو رَہا ہے۔ پنجاب میں وزیرِاعلیٰ محترمہ مریم نواز بہت سرگرم نظر آتی ہیں، مگر ہماری اشرافیہ جس پر مافیاؤں کا قبضہ ہے، اُسے عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ شوگر مافیا نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ چینی کے کارخانوں کے بڑے بڑے مالکان پیپلزپارٹی میں بھی ہیں، نون لیگ کے اندر بھی اور تحریکِ انصاف میں بھی۔ اُن کی ایسوسی ایشن نے حکومت کو یقین دلایا تھا کہ چینی برآمد کرنے سے ملک میں اِس کی قلت پیدا ہو گی نہ اِسکی قیمتوں میں کوئی اضافہ ہو گا، لیکن بڑی مقدار میں چینی برآمد کرنے کے بعد پتہ چلا کہ چینی کی قلت کیساتھ ساتھ قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں، چنانچہ حکومت کو شکر کی قیمتیں معمول سے زیادہ مقرر کرنا پڑی ہیں۔ عوام اِس وقت بہت مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔
ملک میں کوئی ایسا نظام دکھائی نہیں دیتا جو مِل مالکان کا محاسبہ کر سکے اور اُنہیں چینی کی قیمتیں کم کرنے پر مجبور کر ڈالے۔ آج عوام ایک طرف آنے والے بجلی کے بِلوں سے لرزاں ہیں اور دُوسری طرف شکر کی ہر لحظہ بڑھتی ہوئی قیمتیں اُنکی خوشیوں کا خون کر رہی ہیں۔ ہم خوشی کے اِن لمحات میں حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے مافیاؤں سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ کیلئے عوام کا بھی تو کچھ خیال رکھیں جن کی قوتِ خرید سسکیاں لے رہی ہے۔